چیف جسٹس سندھ احمد علی ایم شیخ کو چیف سیکرٹری نے آگاہ کیا ہے کہ صوبے کے 6ہزار 407 سکول بغیر چھتوں کے ہیں، کھلے آسمان تلے بغیر چھت والے سکولوں میں بچوں کا داخلہ انتہائی کم ہے۔

بغیر چھتوں کے سکولوں میں اساتذہ بھی جانے کو تیار نہیں ہیں، مجموعی طور پر صوبے میں 4ہزار 533 اساتذہ بھی مستقل غیر حاضر ہیں، فرنیچر سمیت بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے بچے سکول چھوڑ گئے ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے چیف سیکریٹری سندھ سے صوبے میں 5 سے 16 سال تک بچوں کو مفت تعلیم دینے کیلئے اقدامات ، بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کیلئے سہولتوں کی فراہمی سے متعلق دو ہفتے میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔

چیف سیکرٹری نے عدالت عالیہ میں صوبے کی تعلیمی صورتحال کے بارے میں جو آگاہی دی ہے ،اسے سندھ کا تعلیمی نوحہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس پس منظر میں سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے تفصیلی رپورٹ کی طلبی ایک احسن اقدام اور وقت کی ضرورت ہے، عدالت عالیہ میں دو ہفتے میں پیش کی جانے والی رپورٹ سے صوبہ سندھ میں تعلیم کی مجموعی صورتحال سے آگاہی ہو سکے گی۔

کراچی سمیت سندھ بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالتِ زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ،چارکروڑ80لاکھ سے زائدآبادی والاپاکستان کادوسرا بڑاصوبہ سندھ تعلیمی بحران کاشکارہے، حکومت نے سکولوں کی سیکڑوں عمارتیں بنائی ہیں لیکن ان کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ خستہ حالی کاشکارہیں،بعض عمارتوں کایہ عالم ہے

جہاں پربچوں کوپڑھنا چاہئے تھا وہ جگہیں آوارہ کتوں اور ناپسندیدہ عناصرکامسکن بنی ہوئی ہیں،لیکن متعلقہ ارباب حل و عقد خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں،سرکاری سکولوں میں تعلیمی معیار روزبہ روزگرتاجارہاہے،ماضی میں سرکاری سکولوں میں معیار تعلیم کافی بلند تھا، میٹرک کے امتحانات میں تما م پوزیشن ہولڈرز طلبا کا تعلق سرکاری سکولوں ہی سے ہوتا تھا، محتاط اندازے کے مطابق سندھ میں 6 ہزار سے زائد سکول بند پڑے ہیں یا پھر مختلف با اثر افراد نے اِن سکولوں کو اصطبل یا گودام بنایا ہوا ہے، شدید گرمی میں اساتذہ اور طلباء پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات کے بغیر ہی درس و تدریس جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔

ایچ آر سی پی کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں فقط 31 فیصد بچے سکول جاتے ہیں، جبکہ 69 فیصد بچے تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں، گذشتہ پانچ سال سے سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہونے کے باوجود تعلیمی نظام میں موجود خامیوں کو دورکرنے کے بجائے اس میں مزید تباہی ہوئی ہے، اس وقت سندھ کی ہر تحصیل اور یونین کونسل میں بڑے پیمانے پر سکول بند ہیں۔

کراچی کے چھ اضلاع میں 229 سکول بند ہیں، کراچی جیسے شہر میں بھی تعلیم کی یہ صورتحال ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دور دراز دیہات اور اضلاع میں کیا صورتحال ہوگی۔کراچی تا کشمور سندھ بھر میں 6 ہزار 866 سکولوں کی بندش، سات ہزار 974 کی خستہ حالی اور اساتذہ کی ہزاروں خالی آسامیاں وزیر تعلیم سندھ اور صوبائی حکومت کی تعلیم کے بارے میں سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اس غیر سنجیدگی اور مصلحتوں نے سندھ میں پورے تعلیمی نظام کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، دستیاب اعدادوشمار کے مطابق سندھ میں 19 ہزار 479 سکولز بیت الخلا جبکہ 31 ہزار سے زائد سکول بجلی سے محروم ہیں۔

سندھ بھر کے 21 ہزار 900 سے زائد اسکولوں میں چار دیواری بھی موجود نہیں۔ سندھ کے 36 ہزار سے زائد اسکولوں میں کھیل کے میدان اور 47 ہزار سے زائد اسکولوں میں لیبارٹریز نہیں ہیں، یہ چشم کشا حقائق ہمارے مستقبل کے معماروں کے ساتھ کھلواڑ ہے۔

اٹھارہویں آئینی ترمیم کے آرٹیکل 25-A کے تحت ریاست ہر شہری کو تعلیم دلانے کی پابند ہے، مگر اس تاریخ ساز قانون سازی کے باوجود سند ھ میں تعلیمی مسائل اتنے پیچیدہ ہو چکے ہیں کہ انہیں حل کر نے کیلئے بیک وقت مختلف محاذوں پر مربوط لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

توقع ہے کہ وزیراعلیٰ ، صوبائی وزیر تعلیم اور دیگر عہدیداروں کی جانب سے سندھ میں تعلیمی مسائل حل کر نے کا عزم محض بیان بازی کی حد تک ہی محدود نہیں رہے گا، اور اس حوالے جلد عملی اقدامات سامنے آئینگے۔

Leave a Reply