خلاف قانون ڈیپوٹیشن پر تعینات ڈائریکٹر جنرل شازیہ رضوی مزید 2 برس کی توسیع کے لئے سرگرم عمل، ایک خاتون اعلیٰ افسر پہلے ہی توسیع حاصل کر چکی ہیں:

وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان کے ذیلی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کے قیام کی بنیادی ذمہ داری نجی شعبہ سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ معذور ملازمین اور ان کی بیوگان کو پنشن فراہم کرنا ہے ۔

لیکن اس قومی فلاحی ادارہ میں غیر قانونی طور پر ڈیپوٹیشن افسران کا راج قائم ہوگیا ہے ۔ جس کے باعث ای او بی آئی کا محکمہ اپنے قیام کے اصل مقاصد یعنی نجی شعبہ کے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی فراہمی کو یکسر فراموش کرکے محض بااثر اور طاقتور اعلیٰ افسران کے مفادات کا گڑھ بن گیا ہے ۔

ان بااثر اور طاقتور ڈیپوٹیشن افسران کو ای او بی میں اپنی حکمرانی اس قدر راس آئی ہے کہ وہ اپنی مقررہ تین برس کی مدت ختم ہوجانے کے باوجود ای او بی آئی میں اپنے کلیدی اور منفعت بخش عہدوں سے چمٹے رہنے کے خواہشمند ہیں اور مقررہ مدت ختم ہوجانے کے باوجود ان عہدوں سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ۔

تفصیلات کے مطابق ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی، ای او بی آئی میں اپنی تین سالہ انتہائی ناقص کارکردگی اور شدید بدانتظامی کے باوجود اپنا زبردست اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنی مزید دو برس کی توسیع کے لئے سرگرم ہوگئی ہیں اور اس مقصد کے تحت ای او بی آئی میں افرادی قوت کی قلت کو جواز بنا تے ہوئے وزارت سے اپنی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کے لئے مزید دو برس کی توسیع کی درخواست کی ہے ۔

ابریز مظفر شیخ، ڈپٹی ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ جو خود بھی لاء کیڈر سے تعلق رکھتا ہے اور ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کے چہیتے افسر کی حیثیت سے غیر قانونی طور پر اپنی تعیناتی ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں کرانے میں کامیاب ہو گیا ہے کی جانب سے 20 دسمبر کو سیکشن افسر EOBI، وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان اسلام آباد کو ارسال شدہ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹیریٹ گروپ حکومت پاکستان کی گریڈ 20 کی افسر شازیہ رضوی، 13 مئی2020ء سے ڈیپوٹیشن پر ای او بی آئی میں ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی حیثیت سے تعینات ہیں اور ان کی تین سالہ تعیناتی کی مدت 12 مئی 2023ء کو ختم ہورہی ہے ۔ اسٹبلشمنٹ ڈویژن اور فنانس ڈویژن اسلام آباد کے احکامات کے مطابق تمام درجات کے سول سرونٹس کے لئے ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کی مدت تین برس مقرر کی گئی ہے ۔ لیکن مجاز اتھارٹی کی پیشگی منظوری سے اس میں دو برس کی توسیع دی جاسکتی ہے ۔

اسی طرح اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے 6 اکتوبر 1994ء کے آرڈر کے مطابق ڈیپوٹیشن افسران کی تعیناتی میں توسیع کے لئے مقررہ مدت سے چھ ماہ قبل اسٹبلشمنٹ ڈویژن کو توسیع کے لئے مطلع کرنا لازمی ہے

لیکن شازیہ رضوی کے چہیتے اور ماتحت نان کیڈر افسر ابریز مظفر شیخ نے اپنے مکتوب میں غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا ہے کہ شازیہ رضوی آپریشنز کیڈر میں ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں اور ای او بی آئی میں ڈائریکٹر جنرل آپریشنز کی تین منظور شدہ آسامیاں خالی پڑی ہیں اور ای او بی آئی شازیہ رضوی کی تین سالہ ڈیپوٹیشن مدت ختم ہونے کے بعد ان کی خدمات کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ ادارہ کے جملہ امور خوش اسلوبی سے جاری رکھے جاسکیں ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کا عہدہ آپریشنز کیڈر کے بجائے آفس کیڈر سے تعلق رکھتا ہے اور یہ اہم انتظامی عہدہ باہر سے آنے والے بااثر ڈیپوٹیشن افسران کے بجائے صرف ای او بی آئی کے آفس کیڈر سے تعلق رکھنے والے سینئر افسران کے لئے مختص ہے ۔

ابریز مظفر شیخ نے اپنے مکتوب میں شازیہ رضوی کے ڈیپوٹیشن کی مدت میں توسیع کے لئے ای او بی آئی میں افرادی قوت کی قلت کو جواز بناتے ہوئے شازیہ رضوی کی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کی میعاد میں مزید دو برس کی توسیع کی درخواست کی ہے ۔جو ای او بی آئی ایمپلائیز سروس ریگولیشن مجریہ 1980 ء کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔ جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان بھی کسی بھی سرکاری ادارہ میں بااثر افسران کی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے ۔

واضح رہے کہ شازیہ رضوی اپنے پچھلے محکمہ میں سنگین مالی بدعنوانیوں میں ملوث رہی ہیں اور دی نیوز انٹرنیشنل کے رپورٹر زاہد گشکوری کی 10 مارچ 2020ء کو شائع شدہ اسٹوری کے مطابق سیکریٹری اسٹبلشمنٹ ڈویژن ڈاکٹر اعجاز منیر نے رپورٹر کو بتایا تھا کہ شازیہ رضوی کی نیب ریفرنس میں بھی نامزدگی کے باعث انہیں ترقی نہیں دی گئی اور انہیں اپنی فیملی کے ساتھ رہنے کی خواہش پر ان کا تبادلہ کراچی کیا گیا ہے ۔

ای او بی آئی کے افسران کا کہنا ہے کہ شازیہ رضوی ایک انتہائی ناتجربہ کار اور انتظامی صلاحیتوں سے نابلد افسر ہیں جب سے انہوں نے ای او بی آئی میں ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے عہدہ سنبھالا ہے اس وقت سے پورے ادارہ کا نظم ونسق تباہ ہو چکا ہے ۔ موصوفہ چند گھنٹوں کے لئے آفس آتی ہیں اور جلد چلی جاتی ہیں ۔ ہیڈ آفس میں ملازمین کی بروقت حاضری کے لئے ہزاروں روپے کی لاگت سے نصب بائیو میٹرک سسٹم خراب کردیا گیا ہے ۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے افسران بھی صبح 8 بجے کے بجائے 11 بجے آفس آتے ہیں۔ شازیہ رضوی دو مرتبہ ای او بی آئی کے عارضی چیئرمین کے عہدہ پر فائز رہنے کے باعث اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ادارہ کے افسران میں لسانی بنیادوں پر گروپ بندی اور جی حضوری اور بدعنوان افسران کی کھلم کھلا سرپرستی میں مصروف رہتی ہیں ۔ ای او بی آئی میں اس تشویشناک صورت حال کے باعث ای او بی آئی جیسے پنشن کے قومی فلاحی ادارہ کے بزرگ اور بیوہ پنشنرز اپنی جائز پنشن کے لئے مارے مارے پھرنے پر مجبور ہیں لیکن ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ۔

شازیہ رضوی نے ای او بی آئی کی اصول پرست اور دیانتدار چیئر پرسن ناہید شاہ درانی کو ہر حال میں ناکام بنانے کا تہیہ کیا ہوا ہے اور چیئر پرسن کی جانب سے ادارہ میں کرپشن کے خاتمہ، بدعنوان افسران کے محاسبہ اور اختیارات کے غلط استعمال کی روک تھام کے لئے کی جانے والی کارروائیوں میں رکاوٹ ڈالنے اور انہیں ادارہ کے مختلف امور پر گمراہ کرنے میں مصروف ہیں ۔

اسی طرح ڈائریکٹر جنرل شازیہ رضوی اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ادارہ کے ملازمین کی ویلفیئر کے لئے قائم لون سیکشن میں اپنے چہیتے افسران محمد نعیم شوکت قائم خانی ڈائریکٹر کوآرڈینیشن کو 88 لاکھ روپے، طاہر صدیق اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور وقاص چوہدری کو بالترتیب 55، 55 لاکھ روپے مالیت کے کروڑوں روپے کے قرضہ جات کے اسکینڈل میں براہِ راست ملوث ہیں ۔ اگرچہ ای او بی آئی کی اصول پرست چیئر پرسن ناہید شاہ درانی نے اس لون اسکینڈل کی انکوائری کا حکم دے رکھا ہے ۔ لیکن ڈائریکٹر جنرل شازیہ رضوی اور محمد نعیم شوکت قائم خانی ڈائریکٹر جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے اپنے فرنٹ مین محمد عابد ستار، اسسٹنٹ ڈائریکٹر لون سیکشن کے اس اسکینڈل میں براہِ راست ملوث ہونے اور پورا ریکارڈ غائب کرنے کے باعث اس انکوائری میں جان بوجھ کر رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں جس کے باعث اب تک لون اسکینڈل کی انکوائری شروع نہیں کی جاسکی ہے ۔

بتایا جاتا ہے کہ شازیہ رضوی انچارج میڈیکل ڈپارٹمنٹ کی حیثیت سے میڈیکل فنڈز کے غیر قانونی استعمال میں بھی ملوث پائی جاتی ہے ۔ گزشتہ برس اپنے شوہر کے ساؤتھ سٹی اسپتال کلفٹن میں انتہائی مہنگے علاج ومعالجہ کی مد میں 15 لاکھ روپے کی ادائیگی کرنے کے علاوہ اپنے چہیتے افسر محمد نعیم شوکت کی ادارہ کے منظور شدہ پینل سے باہر آغا خان اسپتال کے لاکھوں روپے کے غیر قانونی میڈیکل بلز کی ادائیگی میں بھی ملوث ہیں ۔

جبکہ اس کے برعکس ادارہ کے چھوٹے مستقل اسٹاف ملازمین کا ماہانہ میڈیکل الاؤنس اچانک بند کردیا گیا ہے اور غیر قانونی طور پر حاضر ملازمت افسران اور اسٹاف ملازمین کے بزرگ اور مختلف امراض میں مبتلا ضعیف العمر والدین کے اسپتال میں علاج ومعالجہ پر پابندی عائد کر رکھی ہے ۔ اسی طرح سنگین امراض میں مبتلا متعدد ریٹائرڈ افسران اور اسٹاف ملازمین کے علاج ومعالجہ اور ان کے جائز میڈیکل بلوں کی ادائیگی بھی بند کردی گئی ہے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شازیہ رضوی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے اہم ترین عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود عجیب وغریب اور پراسرار سرگرمیوں میں ملوث ہے ۔ اس کے کمرہ میں نوجوان خواتین جونیئر افسران رابیل اعوان، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور سحرین سیال، اسسٹنٹ ڈائریکٹر گھنٹوں ڈیرہ ڈالے کھاتی پیتی اور ہلہ گلہ کرتی رہتی ہیں اس دوران اس کا آفس لاک اور خواہ کتنا ہی ضروری کام ہو ادارہ کے مرد افسران کا داخلہ بالکل بند رہتا ہے ۔

واضح رہے کہ اس سے قبل وزارت بین الصوبائی کوآرڈینیشن ڈویژن، اسلام آباد کی گریڈ 20 کی اعلیٰ افسر ناصرہ پروین خان بھی غیر قانونی طور پر ای او بی آئی میں اپنی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع کرانے میں کامیاب ہو چکی ہیں ۔ ناصرہ پروین خان، ای او بی آئی میں بیک وقت ڈائریکٹر جنرل/ فنانشل ایڈوائزر اور ڈائریکٹر جنرل/ انوسٹمنٹ ایڈوائزر کے کلیدی اور منفعت بخش عہدوں پر فائز ہیں ۔ جو ای او بی آئی کے دونوں اہم عہدوں اور ڈپارٹمنٹ کے مفادات کے ٹکراؤ کے مترادف ہے ۔

بتایا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت کے مختلف وفاقی و صوبائی اور خود مختار محکموں کے بااثر اور طاقتور اعلیٰ افسران غیر قانونی طور پر ای او بی آئی کے مستقل افسران کی حق تلفی کرتے ہوئے ای او بی آئی میں اپنی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور 2010ء تا 2013ء کے دوران چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے سیاہ دور میں تو ای او بی آئی میں ڈیپوٹیشن پر تعینات اعلیٰ افسران کی تعداد 52 تک پہنچ گئی تھی ۔ جنہیں 2014 ء میں اس وقت کے چیئرمین محمد ایوب شیخ نے ان کے اصل محکموں کو واپس بھیج دیا تھا

ماضی گواہ ہے کہ ڈیپوٹیشن افسران کا طاقتور طبقہ ہر دور میں ای او بی آئی میں اپنی غیر قانونی طور پر تعیناتی کرا کے محنت کشوں کے پنشن فنڈ ٹرسٹ میں بڑے پیمانے پر نا صرف نقب لگاتا رہا ہے بلکہ کروڑوں اور اربوں روپے کی لوٹ کھسوٹ اور اختیارات کے غلط استعمال میں بھی ملوث رہا ہے ۔ اس سلسلہ میں ڈیپوٹیشن پر تعینات چیئرمین ظفر اقبال گوندل، انوسٹمنٹ ایڈوائزر واحد خورشید کنور اور فنانشل ایڈوائزر نجم الثاقب صدیقی اور دیگر اعلیٰ افسران کی جانب سے ای او بی آئی پنشن فنڈ کی اربوں روپے کی رقم سے سرمایہ کاری کے نام پر کراچی، سکھر، لاہور، اسلام آباد اور چکوال میں معمولی قیمت کی 18 اراضی اور املاک کی بے تحاشہ قیمتوں پر مشکوک خریداری کا 46 ارب روپے کا میگا لینڈ اسکینڈل قابل ذکر ہے ۔ جو 2013ء سے ازخود نوٹس کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے جس کے باعث پنشن فنڈ ٹرسٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے

اس وقت بھی ای او بی آئی میں دیگر محکموں سے تعلق رکھنے والے سات افسران اور ایک نائب قاصد ڈیپوٹیشن پر تعینات ہیں ۔ جن میں چیئر پرسن ناہید شاہ درانی، گریڈ 22، شازیہ رضوی، ایمپلائی نمبر 930701 گریڈ 20، ناصرہ پروین خان، ایمپلائی نمبر 930665 گریڈ 20 ، فیڈرل لینڈ کمیشن کا گریڈ 19 کا بااثر افسر ظفر علی بزدار،ایمپلائی نمبر 930712 جو پہلے ڈیپوٹیشن پر اپنی تعیناتی ڈائریکٹر B&C III اسلام آباد کے عہدہ پر کرانے میں کامیاب ہو گیا تھا اور اب بھاری سفارش کی بدولت اگلے مرحلہ میں وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل اسلام آباد میں انتہائی کلیدی عہدہ پر فائز ہے اور بھاری تنخواہیں پرکشش مراعات اور دیگر سہولیات ای او بی آئی سے حاصل کر رہا ہے ۔

ڈیپوٹیشن افسران ای او بی آئی کی پرکشش مراعات کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کی دیگر مراعات اور سہولیات سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔

جبکہ کمرشیل آڈٹ حکومت پاکستان کا آڈیٹر اور سابق بدعنوان اور مطلق العنان چیئرمین اظہر حمید کا انتہائی چہیتا افسر ثاقب حسین، ایمپلائی نمبر 930676 اسسٹنٹ ڈائریکٹر انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ کی حیثیت سے ہیڈ آفس میں کلیدی عہدہ پر تعینات ہے ۔ جو وفاقی حکومت کے ادارہ کمرشیل آڈٹ ڈپارٹمنٹ اور ای او بی آئی کے مفادات کے ٹکراؤ کے مترادف ہے ۔ ثاقب حسین کا شمار انتہائی بااثر افسران میں کیا جاتا ہے جو اس سے قبل بھی دو بار ای او بی آئی میں آڈٹ ڈپارٹمنٹ میں ہی کلیدی عہدہ پر تعینات رہا ہے اور ڈیپوٹیشن پر تعینات انتظامیہ کی جانب سے ثاقب حسین کو ادارہ کے سینئر آڈٹ افسران کو نظر انداز کر کے ملک کے مختلف شہروں کے ریجنل آفسوں کے سالانہ آڈٹ کی ذمہ داری بھی دی جاتی ہے ۔ حتیٰ کہ وزارت کا ایک بااثر نائب قاصد عبدالرزاق ایمپلائی نمبر 930723 بھی غیر قانونی طور ڈیپوٹیشن پر ای او بی آئی میں تعینات ہونے میں کامیاب ہو گیا ہے ۔

ای او بی آئی کے افسران نے وزارت کے وفاقی سیکریٹری / صدر بورڈ آف ٹرسٹیز EOBI سے مطالبہ کیا ہے کی خلاف ضابطہ طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کو شازیہ رضوی، ظفر علی بزدار، ثاقب حسین اور عبدالرزاق کو فوری طور پر ای او بی آئی سے فارغ کرکے ان کے اصل محکموں میں واپس بھیجا جائے ۔ کیونکہ غیر قانونی طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات بااثر افسران کی وجہ سے ادارہ کے سینئر اور مستقل افسران کی نا صرف شدید حق تلفی ہو رہی ہے بلکہ ان کا مستقبل بھی تباہ ہو رہا ہے ۔

Leave a Reply