24 دسمبر کو جدوجہد آزادی کی ایک عظیم المرتبت شخصیت نواب بہادر یار جنگ کے نام سے موسوم بہادر یار جنگ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی لمیٹڈ کراچی کے زیر اہتمام سوسائٹی کی سماعت گاہ میں ایک تازہ کتاب ” جدوجہد آزادی اور تشکیل پاکستان میں نواب بہادر یار جنگ کی خدمات کا تحقیقی مقالہ ” کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی ۔ جس میں ہم نے اپنے دیرینہ دوست عبدالستار شیخ کے ساتھ شرکت کی جنہیں اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی تقریب کی صدارت معروف ماہر تعلیم ، دانشور اور سابق صدر شعبہ سیاسیات جامعہ اردو کراچی پروفیسر خواجہ قطب الدین نے کی اور تقریب کے مہمان خصوصی معروف شاعر اور دانشور ڈاکٹر جاوید منظر تھے ۔ جبکہ تقریب کے اہم مقررین میں مقالہ کے نگران پروفیسر ڈاکٹر سید وسیم الدین، صدر تقریب پروفیسر خواجہ قطب الدین ،مقالہ نگار ڈاکٹر شاہانہ بیگم PhD، مہمان خصوصی معروف شاعر اور دانشور ڈاکٹر جاوید منظر ، معروف سماجی شخصیت عبدالستار شیخ، ہاؤسنگ سوسائٹی کے چیئرمین عمران علی سید اور اعزازی سیکریٹری شاہد علی تھے ۔ ان شخصیات نے اپنے خطاب میں نواب بہادر یار جنگ کی عظیم المرتبت شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان میں آپ کی غیر معمولی خدمات پر نہایت جانفشانی اور جستجو سے معیاری تحقیقی مقالہ مرتب کرنے پر ڈاکٹر شاہانہ بیگم اور ان کے مقالہ کے نگران معروف ماہر تعلیم اور سابق صدر شعبہ بین الاقوامی تعلقات، جامعہ اردو برائے فنون، سائنس اور ٹیکنالوجی کراچی پروفیسر ڈاکٹر سید وسیم الدین اور اس اہم کتاب کی اشاعت کی سرپرستی میں اہم کردار ادا کرنے پر بہادر یار جنگ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی لمیٹڈ کراچی کو شاندار الفاظ میں زبردست خراج تحسین پیش کیاکتاب کے مقدمہ میں مقالہ کے نگران پروفیسر ڈاکٹر سید وسیم الدین لکھتے ہیں کہ نواب بہادر یار جنگ (1944-1905) بالخصوص حیدرآباد دکن اور برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ایک ہمہ جہت اور آفاقی شخصیت کی حیثیت سے نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔

آپ ایک عظیم مفکر ، سیاست دان ، ماہر اقبالیات ، شعلہ بیاں خطیب، شاعر دانشور اور سب سے بڑھ کر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بااعتماد دست راست تھے ۔ تحریک آزادی کے دوران نواب بہادر یار جنگ کے جوش خطابت اور آپ کی سحر انگیز شخصیت نے مسلمانان برصغیر کی اکثریت کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھاان کا کہنا ہے کہ مقالہ نگار ڈاکٹر شاہانہ بیگم 2003 ء میں نواب بہادر یار جنگ کے یاد میں منعقدہ ایک سیمینار میں معروف علمی اور ادبی شخصیات ڈاکٹر منظور احمد ، علامہ عقیل ترابی ، پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد رضوی ، پروفیسر خواجہ قطب الدین کی جانب سے کی گئی تقاریر سن کر نواب بہادر یار جنگ کی بصیرت افروز شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ انہوں نے نواب بہادر یار جنگ کی شخصیت اور خدمات کے موضوع پر اپنا PhD کا مقالہ تحریر کرنے کا فیصلہ کیا ۔ میرے لئے ایک بڑے اعزاز کی بات ہے کہ الحمدللہ! میری نگرانی میں میری اس ہونہار شاگرد ڈاکٹر شاہانہ بیگم کی تقریباً آٹھ برس کی شب وروز انتھک محنت، جستجو ،علمی اور تحقیقی کاوشوں کی بدولت یہ تحقیقی مقالہ منصہ شہود پر آیاپروفیسر ڈاکٹر سید وسیم الدین شکوہ کرتے ہیں کہ تحریک آزادی کے دوران برصغیر کے مسلمانوں کے لئے نواب بہادر یار جنگ کی غیر معمولی اور انتہائی اعلیٰ خدمات کے باوجود ہم نے نواب بہادر یار جنگ کی دینی، سیاسی، عملی اور فکری صلاحیتوں سے کچھ نہیں سیکھا ۔ اگرچہ قدرت نے نواب بہادر یار جنگ جیسی جلیل القدر شخصیت کو محض 39 برس کی مختصر زندگی بخشی تھی لہذاء فرشتہ اجل نے آپ کو اس جہاں میں مزید جینے کے لئے مہلت نہ دی ۔ لیکن اس مختصر سی زندگی کے باوجود نواب بہادر یار جنگ نے مسلمانان برصغیر کی مذہبی، علمی، فکری اور سیاسی رہنمائی کے لئے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے اس کا کوئی ثانی نہیں ۔ لیکن افسوس صد افسوس ملت نے اعلیٰ پایہ کی اس عظیم المرتبت شخصیت اور اس کی تعلیمات کو فراموش کردیا ۔ آپ نے نواب بہادر یار جنگ جیسی فراموش شدہ عظیم المرتبت شخصیت، اعلیٰ کارناموں اور روشن افکار کو اپنی مایہ ناز تحقیق کی بدولت قوم کے سامنے پیش کرنے پر مقالہ نگار ڈاکٹر شاہانہ بیگم، PhD کی علمی خدمات کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیامقالہ نگار ڈاکٹر شاہانہ بیگم، PhD کتاب کے پیش لفظ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں نے اپنے مقالہ کے لئے نواب بہادر یار جنگ جیسی جلیل القدر شخصیت کو کیوں منتخب کیا تو اس کا اصل کریڈٹ تو میرے استاد محترم اور نگران تحقیق پروفیسر ڈاکٹر سید وسیم الدین کے سر جاتا ہے ۔

جنہوں نے مجھے نواب بہادر یار جنگ جیسی عظیم المرتبت شخصیت اور ان کے کارہائے نمایاں سے متعارف کرایا ۔ یقیناً اگر اس تحقیقی عمل کے دوران میرے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر سید وسیم الدین کی قدم قدم پر رہنمائی اور کرم فرمائی شامل حال نہ ہوتی تو میں اس اہم موضوع پر مقالہ تیار کرنے کی بساط نہیں رکھتی تھی ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان شاءاللہ میرا یہ تحقیقی مقالہ مستقبل میں آنے والے نئے محققین کے لئے تحقیق کے نئے باب وا کرے گاکتاب کے دیباچہ میں پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری، سابق رئیس کلیہ، جامعہ کراچی کا ” تحریک پاکستان کا روشن باب ” شاہد احمد اعزازی سیکریٹری بہادر یار جنگ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی لمیٹڈ کراچی کا ” قابل تحسین کارنامہ ” اور عمران سید علی، چیئرمین بہادر یار جنگ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی لمیٹڈ کراچی کا ” قابل مبارکباد ” اور ڈاکٹر سید عاکف الدین، جامعہ اردو کراچی کا ” مورخین کے لئے پیغام ” کے عنوان سے تحاریر شامل ہیںزیر تبصرہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے ۔

باب اول میں بہادر یار جنگ سوانح و شخصیت، باب دوم میں تحریک پاکستان میں نواب بہادر یار جنگ کی ادبی خدمات، باب سوم میں مسلمانان ہند کی سیاسی بیداری میں بہادر یار جنگ کا کردار، باب چہارم میں دو قومی نظریہ اور بہادر یار جنگ، باب پنجم میں اسلامی ریاست کا قیام اور بہادر یار جنگ، باب ششم میں جدوجہد آزادی اور تشکیل پاکستان میں نواب بہادر یار جنگ کی خدمات اور باب ہفتم میں بہادر یار جنگ کے افکار و نظریات اور استحکام پاکستان شامل ہیں نواب بہادر یار جنگ کی ولادت حیدر آباد دکن میں ہوئی تھی ۔ جہاں آپ کے آباء و اجداد صدیوں سے آباد تھے ۔ آپ کی ولادت سلسلہ آصفیہ کے چھٹے حکمراں نواب میر محبوب علی خان (1866-1911) کے دور میں ہوئی تھی، جو عام طور پر ” دور محبوبی” کہلاتا ہے ۔ 27 ذی الحجہ 1322 ھ مطابق 5 فروری 1905ء کو نصیب یاور جنگ کے گھر وہ صاحب بخت بچہ پیدا ہوا جس کو والدین نے محمد بہادر خان کا نام دیا اور آگے چل کر وہ ” بہادر یار جنگ ” کے شاہی خطاب اور قوم میں لسان الامت اور قائد ملت کے ملی القابات سے مشہور ہوئےسوئے اتفاق سے آپ کی پیدائش کے سات دن بعد ہی آپ کی والدہ محترمہ طالمین خاتون کا انتقال ہو گیا تھا ۔ جس کے بعد آپ اپنی نانی کی پرورش میں آگئے تھے ۔

آپ نے چار برس کی عمر میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ۔ ناظرہ قرآن مجید کے بعد ابتدائی تعلیم مدرسہ عالیہ اور مدرسہ مفیدالانام سے حاصل کی ۔ پھر مدرسہ دارالعلوم بلدہ میں داخل کئے گئے، ابھی آپ میٹرک کے طالب علم تھے کہ والد محترم بھی داغ مفارقت دے گئے ۔ آپ نے مولوی سعد اللہ خان مندوزئی اور مولوی سید اشرف شمسی سے عربی ادب، تفسیر، حدیث و فقہ کی بنیادی تعلیم حاصل کی ۔ بعد ازاں عربی زبان میں مہارت حاصل کی اور فن تجوید و قرات سیکھی ۔ آپ کو شعر و ادب سے بھی گہرا لگاؤ تھا اور خلق تخلص رکھتے تھے ۔ آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ عقیدت پیش کرنے کے لئے نعت گوئی بھی کی ہے جو بیحد مقبول ہوئی تھیں نواب بہادر یار جنگ اپنے ذوق و شوق کی بدولت 35 برس کی عمر میں مختلف دینی علوم وفنون پر دسترس حاصل کرچکے تھے ۔ آپ کو درسی تعلیم سے ہٹ کر فن سپہ گری سے خاص انس تھا ۔ آپ نے فن کشتی، بنوٹ، نشانہ بازی، پنجر کشی، شمشیر زنی اور پیراکی میں بھی مہارت حاصل کی تھی نواب بہادر یار جنگ کی موت کافی پراسرار حالات میں ہوئی ۔ قصہ یوں ہے

کہ جسٹس ہاشم علی خان کے گھر دعوت تھی ۔ چنانچہ آپ مغرب کی نماز پڑھ کر جسٹس ہاشم علی خان کے گھر پہنچے ۔ موٹر میں اسٹیٹ مسلم لیگ کے رہنماء لیاقت علی قریشی نے انہیں حسب عادت پان کا بیڑہ دیا ۔ جسے انہوں نے شوق سے کھایا ۔ میزبان کے گھر میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی سے علامہ اقبال کے کلام کے محاسن پر گفتگو جاری تھی کہ اس دوران چونکہ کھانے میں دیر تھی لہذاء حقہ ان کے سامنے پیش کیا گیا ۔ لیکن ابھی انہوں نے ایک کش بھی پورا نہ لیا تھا کہ اچانک تشنجی کا جان لیوا دورہ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانان برصغیر کی توانا آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی ۔ آپ کا جسد خاکی بنجارہ ہل سے ان کی رہائش گاہ بیت الامت لایا گیا اور دارالاسلام کے وسیع میدان میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور شہر سے چار میل دور مشیر آباد کے قبرستان میں تدفین کردی گئی جبکہ کتاب میں حاصل تحقیق اور انتخاب کلام بہادر یار جنگ خلق، کتابیات اور نواب بہادر یار جنگ تصاویر کے آئینہ میں اور پروفیسر ڈاکٹر سید وسیم الدین کی مطبوعات شامل ہیںکتاب کے سبز رنگ کے سرورق پر کتاب کا عنوان اور نواب بہادر یار جنگ کی تصویر نقش ہے

اور تحقیق کار ڈاکٹر شاہانہ بیگم اور نگران تحقیق پروفیسر ڈاکٹر سید وسیم الدین کے نام درج ہیں ۔ جبکہ حیرت انگیز طور پر سرورق کی پشت کا صفحہ خالی چھوڑا گیا ہے جو مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔ ہماری رائے میں یہاں تحقیق کار کا تعارف شائع کیا جاسکتا تھا

Leave a Reply