قومی اسمبلی کی قانون سے بالاتر خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے سپریم کورٹ کے حکم پر برطرف شدہ 358 جیالے افسران کی بحالی کے غیر قانونی احکامات جاری کرکے سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح احکامات کو ہوا میں اڑا دیا!

2014 ء میں EOBI سے برطرف شدہ اور سرکاری گاڑیاں لے کر مفرور 358 جیالے افسران اور ملازمین کی غیر قانونی طور پر بحالی اور اربوں روپے کے واجبات کے لئے EOBI پر سخت دباؤ، ادارہ میں صورت حال کشیدہ، ادارہ کے اعلیٰ سطحی بورڈ آف ٹرسٹیز نے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کو متفقہ طور پر مسترد کردیا.!!

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے 1976ء میں قائم شدہ محنت کشوں کی پنشن کا قومی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) اپنے قیام کے وقت سے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے بااثر جیالوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے

پاکستان پیپلز پارٹی کے پچھلے دور حکومت میں 2010ء سے 2013ء کے دوران پیپلز پارٹی کے ایک گہرے ہمدرد افسر ظفر اقبال گوندل کو چیئر مین EOBI تعینات کرکے ای او بی آئی میں سیاسی بنیادوں پر 400 بااثر جیالے افسران کو غیر قانونی طور پر کلیدی عہدوں پر بھرتی کیا گیا تھا

جن میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے 14 قریبی عزیز ، اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے داماد راجہ عظیم الحق منہاس کو گریڈ 20 میں، وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کے 60 نزدیکی عزیز واقارب اور ندیم افضل چن اور چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے آبائی علاقہ منڈی بہاوالدین سے تعلق رکھنے والے 83 نزدیکی اقرباء اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر بااثر شخصیات کے قریبی عزیزوں اور پارٹی ورکرز سمیت 400 بااثر جیالے افراد کو غیر قانونی طور پر افسران کے کلیدی عہدوں پر بھرتی کیا گیا تھا

جس پر ای او بی آئی ایمپلائیز فیڈریشن آف پاکستان(CBA) نے سخت صدائے احتجاج بلند کی تھی ۔ لیکن کوئی سود مند نتیجہ برآمد نہ ہونے پر فیڈریشن کے صدر میاں تجمل حسین ( فیصل آباد) نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ہیومن رائٹ سیل اور جنرل سیکریٹری سید مبشر رضی جعفری ہیڈ آفس کراچی نے ایک آئینی پیٹیشن نمبر 6/2011 کے ذریعہ بااثر سیاستدانوں کے اس ظلم و ستم کے خلاف حصول انصاف کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا تھا

ای او بی آئی میں 400 غیر قانونی بھرتیوں اور بڑے پیمانے پر کرپشن کیس تقریباً چار برسوں تک سپریم کورٹ آف پاکستان اسلام آباد میں زیر سماعت رہا ۔ جس میں ای او بی آئی کی انتظامیہ نے بھاری فیسوں پر چوٹی کے وکلاء عبدالحفیظ پیر زادہ اور بیرسٹر اعتزاز احسن سمیت دیگر نامور وکلاء کی خدمات حاصل کی تھیں ۔ لیکن فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل سید مبشر رضی جعفری تمام تر دستاویزی ثبوتوں اور ریکارڈ اور اپنی خداداد صلاحیتوں اور اپنے مؤثر دلائل کے ذریعہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج صاحبان کو اپنے مؤقف پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے

جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بنچ نے 17 مارچ 2014 ء کو اپنے متفقہ فیصلہ میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ان 358 بااثر جیالے افسران اور ملازمین کی بھرتیوں کو سراسر خلاف ضابطہ ، غیر قانونی اور سیاسی بنیادوں پر قرار دیتے ہوئے انہیں ملازمت سے فی الفور برخاست کرنے کا فیصلہ سنایا تھا

جس پر ای او بی آئی کی انتظامیہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر فوری طور پر عملدرآمد کرتے ہو ئے آفس آرڈر نمبر 77/2014 بتاریخ 17 مارچ 2014ء کے تحت تمام 358 جیالے افسران اور ملازمین کو نوکری سے فی الفور برطرف کر دیا تھا ۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس موقع پر EOBI کےHR ڈپارٹمنٹ کے بعض ہمدرد اعلیٰ افسران وفاقی وزیر خورشید احمد شاہ کے 42 ملازمین کو بچانے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔ جو آج بھی EOBI کی ملازمت کے مزے لوٹ رہے ہیں

لیکن یہ طاقتور اور بااثر جیالے افسران اپنی برطرفی کا اعلان سنتے ہی جاتے جاتے ای او بی آئی کیGP نمبر پلیٹ والی سینکڑوں سرکاری گاڑیاں، قیمتی لیپ ٹاپ اور دیگر اہم اشیاء لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔ جو ایف آئی اے کراچی کی تحقیقات اور مئی 2019ء میں تھانہ فیروز آباد کراچی میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 160 کے تحت درج شدہ ایف آئی آر نمبر 288/2019 کے باوجود تاحال ریکور نہیں ہوسکی ہیں ۔ بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان برطرف شدہ جیالے افسران کی کی نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد کردی تھی ۔ جس کے باعث ای او بی آئی میں غیر قانونی بھرتیوں کا یہ سیاہ باب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا تھا ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ تاریخی فیصلہ PLD2014SC494 میں حوالہ کے طور پر محفوظ ہے

واضح رہے کہ غیر قانونی طور پر بھرتی شدہ پیپلز پارٹی کے 400 جیالے افسران اور ملازمین بنا کسی اشتہار، تحریری ٹیسٹ ، انٹرویو ، مطلوبہ تعلیمی قابلیت و تجربہ ڈومیسائل اور مطلوبہ عمر کے بر خلاف محض اقرباء پروری اور سیاسی بنیادوں پر ای او بی آئی میں کلیدی عہدوں پر بھرتی کئے گئے تھے اور انہیں جان بوجھ کر ملک بھر میں نہایت کلیدی عہدوں پر تعینات کیا گیا تھا ۔ جہاں انہوں نے مطلق العنان چیئرمین ظفر اقبال گوندل کی آشیر باد سے پانچ برسوں تک دل کھول کر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور بڑے پیمانے پر سنگین بدعنوانیاں کی تھیں

ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ملک میں پیدا شدہ سیاسی بحران کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی کے وفاقی حکومت میں ایک بار پھر طاقت میں آنے کے بعد مختلف محکموں کے متاثرہ ملازمین کی بحالی کے نام پر 4 اکتوبر 2022ء کو قادر خان مندوخیل، رکن قومی اسمبلی کی سرکردگی میں درج ذیل ارکان قومی اسمبلی نوید عامر جیوا ، قیصر احمد شیخ، نواب شیر، علی گوہر خان، کشور زہرہ، صلاح الدین ایوبی اور عالیہ کامران پر مشتمل ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی

جس کے دائرہ اختیار (ToR) میں صرف Sacked Employees ( Reinstatement) Act 2010 سے متاثرہ ملازمین کے کیسوں کی جانچ پڑتال کرکے انہیں دادرسی فراہم کرنا تھا

لیکن (ToR) کے مطابق اس خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو ای او بی آئی میں غیر قانونی طور پر بھرتی شدہ اور 2014ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر برطرف شدہ 358 جیالے افسران اور ملازمین کی بحالی کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے

لیکن اس کے باوجود اس دوران قومی اسمبلی کی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر ذوالفقار حیدر اور چیئر پرسن محترمہ ناہید شاہ درانی کو بار بار اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں طلب کرکے نا صرف ان پر 358 جیالے افسران اور ملازمین کی بحالی کے لئے سخت دباؤ ڈالا جا رہا ہے بلکہ کئی مواقع پر ان کے ساتھ بدسلوکی بھی کی گئی ۔ لیکن اس تمام تر دباؤ اور کشیدہ صورت حال کے باوجود وفاقی سیکریٹری اور ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے صدر ذوالفقار حیدر اور ای او بی آئی کی چیئر پرسن محترمہ ناہید شاہ درانی نہایت ثابت قدمی سے قانون کی پاسداری کے لئے ڈٹی رہیں جس پر ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں

ان دونوں اعلیٰ افسران نے قانون کی مکمل پاسداری اور EOBI کے مفادات کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے سخت ترین دباؤ کے باوجود 2014ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر برطرف شدہ 358 جیالے افسران اور ملازمین کو نوکریوں پر بحال کرنے اور ان کے گزشتہ 8 برسوں کے اربوں روپے پر مشتمل بقایا جات کی ادائیگی سے یکسر انکار کر دیا ہے

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو ملک کے لاکھوں بیمہ دار محنت کشوں، ای او بی آئی پنشن فنڈ ٹرسٹ اور لاکھوں پنشنرز کے مفادات کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے انہیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ ان کے اس غیر قانونی عمل کے نتیجہ میں ای او بی آئی جیسا فلاحی ادارہ تباہی و بربادی کا شکار بھی ہوسکتا ہے ۔ لیکن انہیں غالباً صرف اپنی پارٹی کے لیڈران کی خوشنودی حاصل کرنے اور لیڈران کے جیالے بچوں، بھانجوں اور بھتیجوں اور پارٹی ورکرز کو ای او بی آئی کی منفعت بخش نوکری پر بحال کرانے کی فکر پڑی ہوئی ہے

اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قادر خان مندوخیل کی سربراہی میں قائم قومی اسمبلی کی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس منعقدہ مورخہ 22 دسمبر 2022 ء اور اس اجلاس کی جاری کردہ روداد بتاریخ 27 دسمبر 2022 ء کے مطابق کمیٹی نے اپنے اختیارات نہ ہونے کے باوجود 2014ء سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر ای او بی آئی سے برطرف شدہ 358 جیالے اور سرکاری گاڑیاں لے کر فرار ہونے والے ملزم افسران اور ملازمین کو بحال کرنے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں جو اندھیر نگری چوپٹ راج کے مترادف ہے

خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا یہ ناروا عمل نہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان کے 17 مارچ 2014ء کے تین رکنی بینچ کے فیصلہ اور بعد ازاں 5 رکنی لارجر بینچ کی جانب سے برطرف شدہ جیالے افسران کی نظر ثانی کی اپیل مسترد کر نے کے فیصلہ کے بھی منافی ہے

قانونی ماہرین کے مطابق خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے خود کو اسمارٹ سمجھنے والے معزز ارکان اپنے اس غیر قانونی عمل کے ذریعہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کے تحت سنگین توہین عدالت کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں

خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے قانون سے بالاتر فیصلہ کے باعث ای او بی آئی میں ایک تشویشناک صورت حال پیدا گئی ہے ۔ جس سے ای او بی آئی کا وجود بھی خطرہ میں پڑ چکا ہے ۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی اس مہم جوئی کا سراسر خمیازہ ای او بی آئی کے 90 لاکھ سے زائد بیمہ دار افراد اور لاکھوں ریٹائرڈ، معذور اور بیوگان پنشنرز کو ان کی ماہانہ پنشن کی بندش کی صورت میں بھگتنا پڑ سکتا ہے

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ای او بی آئی کی انتظامیہ نے اس نازک صورت حال کے پیش نظر 29 دسمبر کو ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کرلیا تھا ۔ جس نے آج اپنے ہنگامی اجلاس میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے 358 جیالے افسران کی بحالی کی سفارشات کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا ہے جو ای او بی آئی جیسے فلاحی ادارہ کے مفادات کے تحفظ کے لئے یقیناً ایک قابل ستائش اقدام ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی بورڈ آف ٹرسٹیز کے اس فیصلہ پر کیا ردعمل ظاہر کرتی ہے

اس صورت حال پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 17 مارچ 2014 ء فیصلہ اور بعد ازاں نظر ثانی کی اپیل مسترد ہوجانے کے بعد خصوصی پارلیمانی کمیٹی سمیت کسی بھی اتھارٹی کو 358 جیالے افسران کی برطرفی کے فیصلہ کی منسوخی یا اسے کالعدم قرار دینے کو کوئی کرنے کا اختیار نہیں ہے

ذرائع کا کہنا ہے کہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر ای او بی آئی میں 358 برطرف شدہ جیالے افسران اور ملازمین کی غیر قانونی بحالی کی صورت میں ای او بی آئی کو 2014ء سے اب تک صرف ان کی تنخواہوں اور الاؤنسز کے بقایا جات کی مد میں کم از کم 5 ارب روپے کی خطیر ادائیگی کرنا پڑ سکتی ہے ۔ جو ملک کے لاکھوں بیمہ دار افراد اور لاکھوں پنشنرز کے پنشن فنڈ ٹرسٹ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتی ہے

یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ 358 برطرف جیالے افسران اور ملازمین کی غیر قانونی بحالی کی صورت میں سے ادارہ کے پرانے افسران اور ملازمین کی سینیارٹی اور میرٹ بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے ۔ جس سے پورے ای او بی آئی کا انتظامی اور مالیاتی نظم و نسق بھی تباہ ہوسکتا ہے

ای او بی آئی میں یہ نازک ترین صورت حال پیدا ہونے کے باعث ای او بی آئی کے پرانے اور تجربہ کار افسران اور اسٹاف ملازمین میں سخت افراتفری اور انتشار پیدا ہو گیا ہے ۔ بے یقینی کی کیفیت سے ادارہ کے روزمرہ امور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں

چنانچہ ای او بی آئی کے پرانے افسران اور ملازمین نے مشترکہ طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان سے استدعا کی ہے کہ وہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے اور اس نازک گھڑی میں ای او بی آئی جیسے فلاحی ادارہ کو سخت ترین آزمائش میں مبتلا کرنے والی اس صورت حال کا ازخود نوٹس لیتے ہوۓ مداخلت کرے اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے ارکان اسمبلی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے تاکہ ملک کے لاکھوں محنت کشوں کے پنشن فنڈ ٹرسٹ کی حفاظت ممکن ہو سکے

انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک کے لاکھوں غریب محنت کشوں کی خون پسینے کی کمائی EOBI پنشن فنڈ ٹرسٹ کو بااثر اور طاقتور مافیا کے ہاتھوں لٹنے سے بچانے کے لئے مستقل بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں تاکہ EOBI میں قانون کی بالا دستی کا بول بالا بھی ہو سکے

ای او بی آئی بچاؤ تحریک پاکستان

Leave a Reply