ثناء احسان یوسفزئی
ہم چار لڑکیوں میں صرف میرے ابا کے پاس گاڑی نہیں تھی ۔ ہم چاروں ہم سفر تھے ، ہمارا تعلق ، اور ہمارے والدین مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے تھے۔سب سے مزے کی بات جو تھی ، وہ یہ کہ ہماری زندگیاں اور ہماری قابلیت کو بالکل بھی اس کلاس سے نہیں جانچا جا سکتاتھا جس سے ہم تعلق رکھتے تھے۔
میں مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی ۔ ایک مجھ سے کچھ کمزور پسِ منظر سے جُڑی تھی ، ایک فیصل آباد کی ایلیٹ اور جاگیردار خاندان سے تعلق رکھنے والی زندگی کو “خوبصورتی” سے گزارنے کی عادی تھی ۔ اور ایک اَپَر مڈل کلاس کی خوشحال گھرانے کی بڑی دوشیزہ تھی ۔ہم سب دراصل معاشی طور پر چار مختلف کلاسز کے نمائندے تھے ۔ایلیٹاپر مڈل کلاسمڈل کلاسلوئر مڈل کلاسلیکن دلچسپ بات یہ تھی ہم تعلیم اور راولپنڈی، دونوں کی گاڑی میں ہم سفر تھے۔
تعلیمی گاڑی میں یوں کہ ہم چاروں ہم جماعت تھیں، اور ہاسٹل سے راولپنڈی ، اپنے گھر تک ہم ایک ہی گاڑی میں آتے تھے۔مجھے معاشی لحاظ سے خود سے بالاتر لوگوں نے کبھی متاثر نہیں کیا تھا۔ شاید یہ میرے والدین کی تربیت تھی،کہ ہم تینوں بہن بھائی الحمدللہ ہمیشہ اپنے تعلیمی میدان، اور پیشہ ورانہ دائرے میں بہت منفرد تھے، یوں کہ ایلیٹ کلاس کی نازک کلیاں ہم تینوں سے کسی نہ کسی موڑ پر مؤدب ضرور رہتیں۔
مجھے کبھی اپنے متوسط گھرانے کا ہونے پر شرمندگی نہیں ہوئی تھی ۔ میں بہت فخر سے اپنی کم پڑھی لکھی ماں کو اپنی اسکول کالج کے فنکشنز میں اپنی سہیلیوں سے متعارف کرواتی، اور میری والدہ ان سب کے لیے ہمیشہ قابلِ رشک رہی تھیں ، کیونکہ انہوں نے اولاد کو صرف جنم نہیں دیا تھا ، بلکہ سب سے منفرد انداز میں پروان بھی چڑھایا تھا ۔ میری امّی ان سب کے لئے محترم ہوتیں، شاید یہ ان کا وقار تھا ، حالانکہ وہ ہمیشہ یہیں کہتی رہی ہیں “میں ان سے مل کر کیا کروں گی، مجھے تو اردو بھی صحیح سے نہیں آتی؟” ۔میں نے اپنی انیس سال کی زندگی میں ایک شے بہت شدت سے سمجھی تھی ، وہ یہ کہ ہر بالائی سطح پر موجود طاقتور انسان کے اوپر ضرور کوئی بہت عمدہ موجود رہتا ہے، اور ہر کمزور سے نیچے ضرور ایک اور کمزور ہوتا ہے۔
چاہے وہ اخلاقی کمزوری ہو، طبقاتی یا معاشی ۔ ہر حال میں ایک بہترین کے اوپر اس سے زیادہ بہترین موجود ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہر لیول پر آپ سے ایک اوپر اور ایک نیچے ضرور ہوتا ہے ۔جی تو میں کہہ رہی تھی ان چار لڑکیوں میں سے میرے ابو وہ واحد والد تھے ، جن کے پاس لمبی گاڑی نہیں تھی جو مجھے اڈے سے گھر تک ڈراپ کرتی ۔ ایک سہیلی کو راولپنڈی سے فیصل آباد جانا ہوتا، تو وہ اپنے کزن کے ساتھ اس کی گاڑی میں،راستے میں ہی اُتر جاتی ، دوسری کو ٹیکسی لینے آتی اور تیسری کو اس کے ڈاکٹر والد ہسپتال سے گاڑی میں لینے آتے ۔
چوتھی میں تھی ۔ مجھے ابو موٹر سائیکل پر لینے آتے تھے ۔ہمارے طبقاتی فرق کے باوجود ، ہر بار سب سے پہلے جو والد اڈے پہنچتے ، وہ میرے ابو ہوتے تھے ۔ اپنی پندرہ سالہ پرانی موٹر سائیکل ، سخت فوجی ڈیوٹی کے باوجود ، جو انسان گاڑی سے ایک گھنٹہ پہلے اڈے پہنچتا ، وہ ابوجی ہوتے ۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم معاشی طور پر کچھ زیادہ کمزور تھے ۔ نہیں ، ہم متوسط طبقے کے اچھے گھرانے کے معزز افراد تھے ۔ لیکن جس معاشرے میں ہم پلے بڑھے ہیں ، وہاں لمبی گاڑی ہونا، دراصل امارت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ میرے ابو ان لوگوں میں سے تھے ، جن کے لئے لمبی گاڑی اور ٹھاٹ بھاٹ ایفورڈ کرنا کچھ مشکل نہیں تھا، لیکن ان کی ترجیح کبھی شان وشوکت نہیں رہی تھی ۔ وہ چاہتے تو اپنے گیراج میں بہترین گاڑی رکھتے لیکن وہی بات نا کہ جو دل کا امیر ہو ، اس کو یہ ثابت کرنے کے لیے ایسا طرزِ زندگی کبھی معانی نہیں رکھتا ۔ ابو جی آسائشوں کو صرف استعمال کی چیزیں سمجھتے تھے ، زندگی گزارنے کا واحد مقصد نہیں ۔
اور ہم تینوں میں سے سب سے آخر میں میری دوست کے ڈاکٹر ابو آتے تھے ۔ وہ ڈاکٹر تھے ، ان کی زندگی ،بہت مشکل تھی ، مصروف اور تھکاوٹ سے بھرپور ۔ ان کو دیکھ کر میں یہی سوچتی ہوں ، کیا اگلے تین سال بعد ہم بھی اتنی ہی لمبی گاڑی رکھنے کے باوجود ، اپنی اولاد کو پِک کرنے کے لیے دو دو گھنٹے کی تاخیر کا شکار ہوں گے؟ غلطی ان کی بھی نہیں تھی ، ہسپتال کے مریضوں کی جان کا معاملہ تھا ، حالانکہ میرے ابو فوج میں تھے ، وہ جن افسروں کے ماتحت تھے ، ان کی زندگی ایک ڈاکٹر سے ذیادہ مشکل تھی۔ کیونکہ انسانی جان تو رب کے اختیار میں ہوتی ہے، انسان کی عزتِ نفس انسانوں کے اختیار میں ہوتی ہے ۔ اور وہ انسان جو بااختیار ہو، اس سے زیادہ گھناؤنا کردار شاید ہی کسی کہانی میں ہوتا ہے۔
ابو کی ساری زندگی بھی اپنی عزتِ نفس اور ان زمینی خداؤں میں خود کو معزز رکھنے کی جدو جہد میں گزری ۔اور جدوجہد کو تو آپ سمجھتے ہیں نا؟ کیا کچھ انسان کو قربان کرنا پڑتا ہے اپنی بقا کی جنگ میں! پھر بھی ابو اپنی ڈیوٹی سے چار گھنٹے کی چھٹی کے دورانیے پر مجھے لینے گھنٹہ بھر پہلے اڈے میں موجود ہوتے ۔مجھے وہ تب اور بھی معتبر لگتے ، جب وہ بجائے مجھے پِک کرکے نکلنے کے, تب تک اڈے میں کھڑے رہتے ، جب تک میری دوست کے والد(جو کہ ڈاکٹر تھے) نہ آجاتے ۔
ان کے نزدیک اپنی ڈیوٹی ، اپنا نقصان اور اوپر کے افسروں کی جھڑکیاں سب کچھ بے معانی ہوجاتا ، کیونکہ وہاں ان کی بیٹی کی ہم عمر بچی کو بھرے اڈے میں اکیلا چھوڑ دینا، ان کے اصول و ضوابط کے سخت خلاف تھا۔مجھے یقین ہے ، کہ کوئی انسان اگر ان کی بیٹی کو مستقبل میں تحفظ دے گا ، تو وہ صرف اس لئے کہ اللّٰہ انسانوں پر ادھار نہیں رکھتا ۔ابو جی اصولوں کے پکے انسان ہیں ، میں نے بہت کم ایسے لوگوں کو دیکھا ہے ، جو اپنی اقدار پر سمجھوتا نہیں کرتے، اور ان سب میں سب سے زیادہ مضبوط شخصیت کے انسان میرے اپنے والد ہیں۔ ایک گھنٹہ انتظار کے بعد اس روز گھر کے قریب آتے ہی ابو وہاں کے مشہور سموسے والی دکان پر رکے ، اور مجھے کہا کہ امی کو کال ملا کر اطلاع دوں کہ چائے چڑھا دیں ۔
امی نے بھی اپنی عرصے بعد آئی بیٹی کے لیے مچھلی بھون کر رکھی تھی ، جھٹ سے بولیں ، “تو مچھلی کون کھائے گا جب آپ لوگ سموسے لے آؤ گے ؟” میں نے کال کاٹی تو ابو نے سموسے والے کو پیسے دیے اور آواز لگا کر کہا ، بھائی ایک جلیبی بھی چیک کرنے کے لیے ڈال دو۔ ابو ان کے پرانے گاہک تھے، دکان دار نے خوش دلی سے ایک پیکٹ میں جلیبی رکھ کر سموسوں کے ساتھ باندھ دی ۔ابو نے بائیک اسٹارٹ کی اور میں اگلے کتنے دن یہ سوچتی رہی ، کہ میرے پسندیدہ سموسوں کے تھیلے بھرتے ہوئے ابو کتنی خوشی سے قیمت ادا کر رہے تھے ، اور اپنی پسند کی جلیبی صرف چکھنے کے لئے ڈلوائی، کیا ہم سالوں بعد اپنے والدین کے لئے ایسا کر سکیں گے؟ اپنا پیٹ کاٹ کر ، عزتِ نفس کو زخمی کر کے، اولاد کی تحفظ اور خوشی کے لیے اپنے آرام کو فراموش کر دینے والدین کو ایسا کیا خراجِ تحسین پیش کیا جانا چاہیے ، کہ ان کی عمر بھر کی ریاضتوں کا صرف ایک فیصد حق ہی ادا ہو جائے ؟