ای او بی آئی: قانون سے بالاتر اور بااثر ڈیپوٹیشن افسران کی اجارہ داری ،غیر قانونی ڈیپوٹیشن پر تعینات ڈی جی شازیہ رضوی اسٹبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے ہٹانے کے باوجود تاحال کلیدی عہدہ پر مسلط، واپس جانے کے بجائے تبادلہ منسوخ کرانے میں کوشاں!

ملک کے نجی شعبہ کے ملازمین کی پنشن کے محکمہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن(EOBI) زیر نگرانی وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان میں غیر قانونی طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات بااثر اعلیٰ افسران کی مکمل اجارہ داری قائم ہے ۔ جو بھاری تنخواہوں اور پرکشش مراعات کے حصول کے باوجود ای او بی آئی کے مفادات کے تحفظ کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کے لئے کوشاں ہیں

ای او بی آئی میں 2020 ء سے غیر قانونی طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات انتہائی بااثر خاتون افسر شازیہ رضوی، ڈائریکٹر جنرل ایچ آر اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ HR&GA، ہیڈ آفس کراچی، اسٹبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد کی جانب سے فوری طور پر اسٹبلشمنٹ ڈویژن واپس بلائے جانے کے واضح احکامات کے باوجود ڈائریکٹر جنرل کا منفعت بخش عہدہ چھوڑنے پر رضامند نہیں ہے اور اس عہدہ پر زبردستی مسلط رہتے ہوئے اپنے تبادلہ کو منسوخ کرانے کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف ہے ۔

تفصیلات کے مطابق سیکریٹیریٹ گروپ، حکومت پاکستان کی گریڈ 20 کی ایک خاتون اعلیٰ افسر شازیہ رضوی کراچی میں اپنی فیملی کے ساتھ رہنے کی خواہش پر اسٹبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد میں اپنا زبردست اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے 12 مئی 2020 ء کو غیر قانونی طور پر ای او بی آئی ہیڈ آفس کراچی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں کرانے میں کامیاب ہو گئی تھیں جبکہ یہ کلیدی عہدہ ای او بی آئی کے سینئر افسران کے لئے مختص عہدہ ہے اور اس پر کسی ڈیپوٹیشن افسر کو تعینات نہیں کیا جاسکتا ۔

بتایا جاتا ہے کہ شازیہ رضوی سیکریٹیریٹ گروپ سے منسلک ہونے کے باعث کسی وفاقی ادارہ میں ہیومن ریسورس اور ایڈمنسٹریشن سے قطعی طور پر نابلد اور ناتجربہ کار افسر ہے جس کی ای او بی آئی جیسے قومی فلاحی ادارہ میں تین سالہ ناقص کارکردگی اور نااہلیت کے باعث ای او بی آئی کا نظم ونسق بالکل تباہ ہوچکا ہے ۔ شازیہ رضوی ادارہ کے ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ کو تو چلانے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئیں ۔ انہوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ادارہ کے سینئر اور تجربہ کار افسران کو یکسر نظر انداز کرکے انتہائی جونیئر اور خوشامدی افسران پر مشتمل ایک متوازن انتظامیہ تشکیل دی تھی ۔ جنہوں نے شازیہ رضوی کی خوشنودی کی خاطر ادارہ کے تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ادارہ میں من فیصلے کرکے شدید انتظامی و مالی بحران پیدا کردیا تھا ۔ جس پر سابق چیئرمین شکیل احمد منگنیجو اور موجودہ چیئر پرسن ناہید شاہ درانی کو مداخلت کرکے اس بگڑی صورت حال پر قابو پانا لڑا تھا ۔

بتایا جاتا ہے کہ شازیہ رضوی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود ای او بی آئی کے معاملات میں عدم دلچسپی اور وقت گزاری میں مصروف ہے خاتون اعلیٰ افسر آدھے دن سے دفتر آتی ہیں اور ادارہ کے اکثر اعلیٰ افسران نے اپنی باس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی روش کو اپنالیا ہے ۔ جس کے باعث ای او بی آئی کے ہزاروں بیمہ دار افراد کو اپنی ریٹائرمنٹ اور معذوری کے بعد اور متوفی بیمہ دار افراد کی بے سہارا بیوگان کو ای او بی آئی کے ملک بھر کے ریجنل آفسوں میں اپنی جائز پنشن کے حصول میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس کمزور طبقہ کا کوئی پرسان حال نہیں۔

لیکن بااثر افسر شازیہ رضوی اپنی اس ناقص کارکردگی اور ادارہ کے معاملات میں عدم دلچسپی کے باوجود وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل اسلام آباد میں اپنے بھاری اثرورسوخ کی بدولت ماضی میں تین مرتبہ ای او بی آئی کی قائم مقام چیئر پرسن کے عہدہ پر بھی فائز رہ چکی ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے ای او بی آئی کی کارکردگی اور خدمات کو بہتر بنانے کے لئے ایک دھیلے کا بھی کام نہیں کیا ۔

ذرائع کا کہنا ہے ڈیپوٹیشن پر پابندی کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح احکامات کے خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات خاتون افسر شازیہ رضوی نے ای او بی آئی میں اپنی تین سالہ مطلق العنان حکمرانی سے اچھی طرح لطف اندوز ہونے کے بعد اپنے اصل ادارہ میں واپسی کے بجائے ای او بی آئی میں اس کلیدی عہدہ کے لامحدود اختیارات اور بیش بہا فوائد سے مزید لطف اندوز کے لئے 20 دسمبر 2022 ء کو اپنے ایک چہیتے لیکن انتہائی جونیئر افسر ابریز مظفر شیخ ڈپٹی ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے ذریعہ ای او بی آئی میں اپنی غیر قانونی ڈیپوٹیشن میں مزید دو برس کی توسیع کے لئے ای او بی آئی میں اپنے ناگزیر کردار کو جواز بناتے ہوئے اور ادارہ کی کارکردگی کے لئے اپنے نام نہاد کارنامے گنواتے ہوئے وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان کو ایک خط ارسال کرایا تھا ۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2014 ء میں ادارہ میں بھرتی ہونے والا ابریز مظفر شیخ اگرچہ لاء کیڈر سے تعلق رکھتا ہے لیکن ڈائریکٹر جنرل شازیہ رضوی نے اپنے اثرورسوخ سے کام لیتے ہوئے اور اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت اسے لاء ڈپارٹمنٹ سے تبادلہ کراکے غیر قانونی طور پر ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں نہایت کلیدی عہدہ پر تعینات کرایا ہوا ہے ۔ اس لئے یہ جونیئر افسر ادارہ کے مفادات کے تحفظ کے بجائے ہر دم ڈائریکٹر جنرل شازیہ رضوی کی خوشنودی اور تابعداری میں لگا رہتا ہے ۔

بعد ازاں ابریز مظفر شیخ کے مذکورہ خط کی بنیاد پر شازیہ رضوی اسٹبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد سے 23 فروری 2023 کو 12 مئی 2025 تک اپنی دو برس کی ڈیپوٹیشن میں توسیع حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی ۔ لیکن اس دوران خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اعلیٰ حکام کے علم میں اچانک شازیہ رضوی کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور سنگین کرپشن کے اہم حقائق سامنے آگئے جس پر اسٹبلشمنٹ ڈویژن نے اپنے 23 فروری 2023 کے دو سالہ توسیع کے احکامات فوری طور پر واپس لے لئے اور 5 مارچ 2023 کو جاری کردہ ایک اور آرڈر کے تحت ڈائریکٹر جنرل شازیہ رضوی کی دو برس کی توسیع کے احکامات منسوخ کرکے اسے فوری طور پر اسٹبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا ہے ۔

لیکن ذرائع کا کہنا ہے اسٹبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد کے ان واضح احکامات کے باوجود شازیہ رضوی تاحال ڈائریکٹر جنرل ایچ آر اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے انتہائی اہم اور منفعت بخش عہدہ سے چمٹی ہوئی ہے اور وہ کسی صورت یہ کلیدی عہدہ چھوڑنے پر رضامند نہیں ہے اور اس دوران کسی نہ کسی قیمت پر اپنا تبادلہ منسوخ کرانے کے لئے بھاری سفارشیں لڑانے میں مصروف ہے ۔ اس عمل سے ڈیپوٹیشن افسر شازیہ رضوی کے گہرے اثرورسوخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ شازیہ رضوی ای او بی آئی میں انتہائی کلیدی عہدہ پر فائز رہتے ہوئے اپنے زبردست اثر و رسوخ کی بناء پر گزشتہ تین برسوں کے دوران غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کے وسائل اور سہولیات کا بلا دریغ استعمال کرتی رہی ہے ۔ جس میں ادارہ کے پینل سے غیر منظور شدہ انتہائی مہنگے ساؤتھ سٹی اسپتال کلفٹن میں اپنے شوہر کے علاج ومعالجہ پر 14 لاکھ روپے کے اخراجات، دیگر بھاری میڈیکل اخراجات اور فیلڈ آپریشنز کے بدعنوان افسران کے من پسند ریجنل آفسوں میں ٹرانسفر اور پوسٹنگ میں بھاری رقومات کی وصولی اور مختلف انتظامی اور مالیاتی امور میں بڑے پیمانے پر اختیارات کے ناجائز استعمال میں ملوث رہی ہے جس کی تحقیقات ضروری ہے ۔

ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کی جانب سے ای او بی آئی کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی واضح مثال پچھلے دنوں اس کے اکلوتے بیٹے کی شادی کے موقع پر سامنے آئی جب شازیہ رضوی نے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے نا صرف ای او بی آئی کے وسائل درجنوں گاڑیاں معہ ڈرائیورز اور پٹرول استعمال کئے بلکہ ڈیفنس سوسائٹی میں واقع ای او بی آئی کے گیسٹ ہاؤس میں شازیہ رضوی کے مختلف شہروں سے آنے والے درجنوں مہمان 15 دنوں تک مال مفت دل بے رحم کی طرح گیسٹ ہاؤس پر قابض رہے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں شازیہ رضوی پر سیکریٹری بلدیات سندھ کی حیثیت سے وزیر بلدیات آغا سراج درانی کی ملی بھگت سے بلدیاتی اداروں میں سینکڑوں غیر قانونی بھرتیوں کے الزامات کے تحت نیب میں ایک ریفرنس زیر سماعت ہے ۔ جس میں نیب سندھ نے شازیہ رضوی کو متعدد بار طلب کرکے اس سے تحقیقات کی ہیں ۔ لیکن قومی خزانہ کو کروڑوں روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے باوجود آج تک شازیہ رضوی کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی عمل میں نہیں آئی ۔

وفاقی سیکریٹری اسٹبلشمنٹ ڈویژن ڈاکٹر اعجاز منیر نے 10 مارچ 2020 ء میں زاہد گشکوری کی دی نیوز انٹرنیشنل میں شائع شدہ ایک رپورٹ میں شازیہ رضوی کے حوالہ سے کہا تھا کہ نیب کرپشن ریفرنس میں نامزدگی کے باعث شازیہ رضوی کو اگلے گریڈ میں ترقی نہیں دی جارہی اور ان کی کراچی میں رہنے کی درخواست پر ان کا کراچی تبادلہ کیا گیا ہے ۔

مزید برآں شازیہ رضوی کے علاوہ ای او بی آئی میں ایک طویل عرصہ سے فیڈرل لینڈ کمیشن اسلام آباد کا ایک بااثر افسر ڈپٹی ڈائریکٹر ظفر علی بزدار، ای او بی آئی کے سینئر افسران کا حق مارکر اور غیر قانونی طور پر ڈیپوٹیشن پر اپنی تعیناتی کراکے ڈائریکٹر B&C III اسلام آباد کے منفعت بخش عہدہ پر فائز ہے اور اسی طرح ڈائریکٹر کمرشل آڈٹ حکومت پاکستان کا ایک بااثر اور ای او بی آئی کے سابق بدعنوان چیئرمین اظہر حمید کا انتہائی چہیتا آڈٹ افسر ثاقب حسین بھی اسسٹنٹ ڈائریکٹر انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس میں تعینات ہے ۔ ثاقب حسین کی آڈٹ ڈپارٹمنٹ میں تعیناتی ای او بی آئی اور ڈائریکٹر کمرشل آڈٹ کے مفادات کے ٹکراؤ کے مترادف ہے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ڈیپوٹیشن افسران کی ای او بی آئی میں تعیناتی نا صرف سپریم کورٹ آف پاکستان کے ڈیپوٹیشن پر پابندی کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے بلکہ اس کے باعث ای او بی آئی کے اصل سینئر افسران کے کیریئر کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے ۔ ای او بی آئی کے ملازمین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ محنت کشوں کی پنشن کے قومی ادارہ کو ان مفاد پرست، بااثر اور بدعنوان ڈیپوٹیشن افسران سے فوری طور پر نجات دلائی جائے ۔

Leave a Reply