شازیہ رضوی 23 فروری کو اسٹبلشمنٹ ڈویژن سے دو برس کی توسیع حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی ۔ لیکن 5 مارچ کو اسٹبلشمنٹ ڈویژن نے اپنا آرڈر منسوخ کرکے شازیہ رضوی کو فوری طور پر واپس بھیجنے کے احکامات جاری کئے تھے ۔

الحمدللہ! ای او بی آئی کو بالآخر، سفارشی اور نااہل خاتون ڈیپوٹیشن افسر شازیہ رضوی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ سے نجات مل گئی ۔ شازیہ رضوی 23 فروری کو اسٹبلشمنٹ ڈویژن سے دو برس کی توسیع حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی ۔ لیکن 5 مارچ کو اسٹبلشمنٹ ڈویژن نے اپنا آرڈر منسوخ کرکے شازیہ رضوی کو فوری طور پر واپس بھیجنے کے احکامات جاری کئے تھے ۔

ای او بی آئی میں افسران کی گروپ بندی عروج پر، موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے 2007 ء سے تعلق رکھنے والا انتہائی بااثر افسر سید علی متقی شاہ 1995ء گروپ کے سجاد احمد کو سائیڈ لائن کرکے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے کلیدی عہدہ پر فائز ہونے میں کامیاب ۔

ای او بی آئی میں گزشتہ تین برسوں سے غیر قانونی طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات اور مزید دو برس کی توسیع کی خواہش مند بااثر اور انتہائی نااہل ڈائریکٹر جنرل ایچ آر اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کی ای او بی آئی سے بالآخر چھٹی ہوگئی ہے ۔

واضح رہے کہ شازیہ رضوی مئی 2020ء سے ای او بی آئی میں غیر قانونی طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات تھی اور رواں سال مئی میں اپنی مدت ختم ہونے سے قبل 23 فروری کو مزید دو برس کی تعیناتی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی لیکن اسٹبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد نے 5 مارچ کو اچانک اپنا آرڈر منسوخ کرکے شازیہ رضوی کو فوری طور پر اس کے اصل محکمہ واپس بھیجنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا ۔ لیکن شازیہ رضوی ای او بی آئی میں اس انتہائی کلیدی عہدہ پر برقرار رہنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے میں مصروف تھی اور اس نے گزشتہ دنوں اسٹبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد کے اعلیٰ حکام اور اپنے ایک ماتحت افسر اور وزیر اعلیٰ سندھ کے کزن سید انور علی شاہ ریجنل ہیڈ کوٹری کے ساتھ سید مراد علی شاہ سے ملاقات بھی کی تھی ۔ لیکن اس کی ساری کوششیں رائیگاں گئیں اور آج اسے چیئر پرسن کے حکم پر ای او بی آئی سے فارغ کردیا گیا ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شازیہ رضوی سیکریٹیریٹ گروپ حکومت پاکستان کی گریڈ 20 کی افسر تھی اور 2013ء میں سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کی حیثیت سے وزیر بلدیات آغا سراج درانی کے ساتھ محکمہ بلدیات میں بڑے پیمانے پر غیر قانونی بھرتیوں کے اسکینڈل میں ملوث ہونے کے نتیجہ میں نیب ریفرنس میں نامزد تھی ۔ بتایا جاتا ہے کہ شازیہ رضوی محض اپنی فیملی کے ساتھ رہنے کے لئے ای او بی آئی ہیڈ آفس کراچی میں اپنی تعیناتی کرانے میں کامیاب ہو گئی تھی ۔

شازیہ رضوی آفس ایڈمنسٹریشن اور ایچ آر ڈیولپمنٹ میں بالکل کوری اور انتہائی ناتجربہ کار خاتون افسر تھی ۔ جس نے ای او بی آئی ہیڈ آفس کراچی میں تعیناتی کے بعد اپنے پس پردہ مقاصد کے تحت ای او بی آئی کے سینئر اور تجربہ کار افسران کو سائیڈ لائن کرکے ایک نان کیڈر انتہائی جونیئر اور بدعنوان افسر طاہر صدیق اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو اپنا اسٹاف افسر (SO) مقرر کرکے جی حضوری اور جونیئر افسران پر مشتمل ایک متوازی انتظامیہ تشکیل دی تھی ۔

اس دوران شازیہ رضوی نے اپنے اسٹاف افسر طاہر صدیق کو ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں بیک وقت پانچ اہم عہدوں کے اضافی چارج دے کر ہر قسم کی لاقانونیت کے لئے کھلی چھٹی دے رکھی تھی ۔ چنانچہ طاہر صدیق نے اپنے اختیارات کا بھرپور طور پر ناجائز استعمال کرتے ہوئے نا صرف ای او بی آئی کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں بڑے پیمانے پر ہیرا پھیری اور لوٹ کھسوٹ کی بلکہ فیلڈ آپریشنز کے افسران کی من پسند ٹرانسفر اور پوسٹنگ میں لاکھوں کمائے ۔

طاہر صدیق نے ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کی مکمل آشیر باد سے انتقامی کارروائیوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے متعدد سینئر اور تجربہ کار اور فرض شناس افسران کے خلاف غیر قانونی تادیبی کارروائیاں کیں ، چارج شیٹوں کا اجراء کیا اور ان کے سزا کے طور پر دور افتادہ علاقوں میں ٹرانسفر بھی کئے تھے ۔

شازیہ رضوی پر یہ سنگین الزام ہے کہ اس نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ای او بی آئی کنٹری بیوشن کی وصولی اور پنشن کی تقسیم کے لئے مقرر کردہ بینک الفلاح کی چار سالہ مدت کے خاتمہ کے باوجود بھاری کمیشن کمانے کے لئے اس وقت کے ڈپٹی چیئرمین محمد نعیم شوکت قائم خانی کی ملی بھگت سے ادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹیز سے بینک الفلاح کی مدت میں مزید دو برس کی غیر قانونی توسیع کرائی تھی ۔
اسی طرح شازیہ رضوی نے ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی حیثیت سے کروڑوں روپے کے قرضہ جات کی مد میں ادارہ کے حقدار ملازمین کو نظر انداز کر کے اپنے چہیتے افسران محمد نعیم شوکت قائم خانی ڈائریکٹر کوآرڈینیشن، طاہر صدیق، AD وقاص چوہدری، AD اور دیگر افسران کو نوازا تھا ۔ جس پر چیئر پرسن ناہید شاہ درانی نے اس قرضہ اسکینڈل کی انکوائری کا حکم دیا تھا اور 15 دن میں اس انکوائری کی رپورٹ طلب کی تھی ۔ لیکن اس موقع پر شازیہ رضوی کے ایک اور چہیتے اور جی حضوری افسر شفیق احمد پتر ڈائریکٹر آڈٹ نے اس قرضہ اسکینڈل میں براہ راست ملوث اعلیٰ افسران ڈی جی شازیہ رضوی، محمد نعیم شوکت قائم خانی، ڈائریکٹر کوآرڈینیشن اور طاہر صدیق اور وقاص چوہدری اور ان کے 2014 ء بیچ کے گہرے دوست عابد ستار اسسٹنٹ ڈائریکٹر قرضہ جات کو بچانے کے لئے کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود جان بوجھ کر اب تک انکوائری روک رکھی ہے ۔ جس پر تاخیر ہونے پر گزشتہ دنوں نیب کراچی نے ای او بی آئی سے رپورٹ طلب کرلی ہے لیکن شفیق احمد پتر کی جانب سے انکوائری میں جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کرنے کے باعث اب ڈی جی شازیہ رضوی سزا سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئی ہے ۔

بتایا جاتا ہے کہ شازیہ رضوی کے دور میں ای او بی آئی کے فیلڈ آپریشنز میں ٹرانسفر اور پوسٹنگ کی مد میں لاکھوں کروڑوں روپے کی کرپشن کی جاتی رہی ۔ لیکن شازیہ رضوی نے اپنا منہ مانگا حصہ وصول کرکے اس لوٹ کھسوٹ پر اپنی آنکھیں بند کئے رکھیں ۔

شازیہ رضوی گزشتہ تین برسوں کے دوران مال مفت دل بے رحم کی طرح ای او بی آئی کے مالی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کرتی رہی اور اس کی لاقانونیت پر اعتراض کرنے والے فرض شناس افسران کو اس کے غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑا ۔ شازیہ رضوی نے ای او بی آئی کے مستقل اسٹاف ملازمین کے والدین کے اسپتال میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی اور ان کے ماہانہ میڈیکل الاؤنس کو بھی روک دیا تھا لیکن ای او بی آئی کے پینل سے باہر ساؤتھ سٹی اسپتال کلفٹن میں اپنے شوہر نامدار کا انتہائی مہنگا علاج و معالجہ کراتی رہی ۔ جبکہ شازیہ رضوی کے سیاہ دور میں ایچ آر ڈپارٹمنٹ کی چار اہم فائلیں غائب پائی گئی ہیں ۔ جن کی کسی کو پروا نہیں ہے ۔ جس کے اصل ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے چیئر پرسن کو فوری طور پر انکوائری کرانے کی ضرورت ہے ۔

غرضیکہ بدعنوان اور نا اہل خاتون افسر شازیہ رضوی کے سیاہ دور میں ای او بی آئی کا نظم ونسق تباہ ہوچکا تھا جس کے باعث ادارہ کا اہم ریکارڈ تباہ و برباد ہوچکا ہے اور اس کی اصلاح میں کافی وقت لگے گا ۔

بدنام زمانہ خاتون افسر شازیہ رضوی کے جاتے ہی ای او بی آئی کی چیئرپرسن کی جانب سے مختلف گروپوں میں تقسیم اعلیٰ افسران کے تبادلے بھی کر دیئے ہیں ۔ جس کے مطابق شازیہ رضوی کے خاص دست راست اور ظفر اقبال گوندل کے اسٹاف افسر کی حیثیت سے 358 غیر قانونی بھرتیوں کے مرکزی کردار سجاد احمد، ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ کو اس کلیدی عہدہ سے ہٹاکر ریجنل ہیڈ ناظم آباد ، سید علی متقی شاہ ریجنل ہیڈ ناظم آباد کو سجاد احمد کی جگہ ،جبکہ ایک اور انتہائی بدعنوان افسر مبشر رسول ڈائریکٹر آپریشنز/ ریجنل ہیڈ کریم آباد کو ریجنل ہیڈ سیالکوٹ اور طویل عرصہ سے دفتر آئے بغیر گھر بیٹھے بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات وصول کرنے والے بدعنوان افسر امتیاز صادق تارڑ ڈائریکٹر B& C II لاہور کو ریجنل ہیڈ کریم آباد اور حسنین مہدی امتیاز، ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز کو ڈپٹی ریجنل ہیڈ سیالکوٹ تعینات کیا گیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ سجاد احمد کا تعلق آفس کیڈر سے جبکہ سید علی متقی شاہ کا تعلق آپریشنز کیڈر سے بتایا جاتا ہے ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ امتیاز صادق تارڑ کا تعلق ساہیوال سے ہے اور اس نے طاہر صدیق AD سے پس پردہ مقاصد کے تحت اپنی دوستی نبھانے کے لئے اپنی سرکاری گاڑی ساہیوال میں مقیم بااثر اور بدعنوان افسر طاہر صدیق اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے سسرال والوں کو بخشی ہوئی ہے ۔ جس کے پٹرول اور مرمت کے اخراجات ریجنل آفس ساہیوال کے فنڈز سے برداشت کئے جاتے ہیں ۔

لیکن افسوس صد افسوس ملک کے غریب محنت کشوں کے چندہ سے چلنے والے اور انہیں بڑھاپے اور معذوری میں پنشن فراہم کرنے والے ادارہ EOBI میں ہونے والی اس اندھیر نگری کی پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں!

Leave a Reply