ای او بی آئی ریجنل آفس مانگا منڈی لاہور کے بااثر، ملازم رانا شفاعت علی نے دفتر کے دو بند ٹیلی فون کے جعلی بل تیار کرکے ادارہ کو ہزاروں روپے کا چونا لگا دیا : بدعنوان افسران کا نیٹ ورک ملوث ہے!

غریب محنت کشوں کے چندہ (Contribution) سے چلائے جانے والے پنشن کے قومی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI)، زیر نگرانی وزارت سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت پاکستان خواتین افسران پر مشتمل انتہائی کمزور انتظامیہ کے باعث بدعنوان اور جعلساز عناصر کی آماجگاہ بن گیا ہے ۔ ادارہ میں آئے دن نت نئے مالی اسکینڈل سامنے آرہے ہیں ۔ بااثر اور بدعنوان افسران اختیارات کے غلط استعمال اور بڑے پیمانے پر کرپشن کے ذریعہ اس فلاحی ادارہ کا خون چوس رہے ہیں ۔ بد انتظامیوں اور بدعنوانیوں میں ملوث بااثر افسران کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ ہونے کے باعث پورے ادارہ کا انتظامی اور مالیاتی نظم ونسق تباہ ہوچکا ہے ۔

ادارہ کے بااثر اور بدعنوان افسران اور اسٹاف ملازمین نے غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کو مال مفت دل بے رحم اور ای او بی آئی کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھا ہوا ہے ۔ یہ بااثر افسران اپنی مرضی سے دفتر آتے اور چلے جاتے ہیں، بلا اجازت طویل رخصت حاصل کرتے ہیں اور بڑی دیدی دلیری کے ساتھ پوری تنخواہیں اور پر کشش مراعات وصول کرتے ہیں ۔ اختیارات کے غلط استعمال، ریکارڈ میں جعلسازی اور اور بڑے پیمانے پر کرپشن کے باوجود ان لاڈلے افسران کو کوئی پوچھنے والا نہیں،کراچی سے لے کر گلگت تک پورے ادارہ میں بااثر اور بدعنوان افسران کی جانب سے لاقانونیت اور مطلق العنانی کے باعث ای او بی آئی کا وجود خطرہ میں پڑ گیا ہے ۔

ای او بی آئی اپنی تشکیل کے لحاظ سے ایک ٹرسٹ قومی ادارہ ہے اور اس کے تمام افسران اور اسٹاف ملازمین ٹرسٹی اور پنشن فنڈ کے رکھوالے کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ہیڈ آفس کراچی میں گزشتہ تین برسوں سے غیر قانونی طور پر ڈیپوٹیشن پر براجمان خاتون ڈائریکٹر جنرل ایچ آر اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ شازیہ رضوی کی انتہائی کمزور اور سیاست زدہ ایڈمنسٹریشن کے باعث ای او بی آئی کے بااثر اور بدعنوان افسران اور بعض اسٹاف ملازمین ایک دوسرے سے ملی بھگت سے غریب محنت کشوں کی پنشن کے ادارہ ای او بی آئی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں ۔ لیکن نسوانی انتظامیہ کے راج میں ادارہ کو لاکھوں روپے کا چونا لگانے والی کالی بھیڑوں کی گرفت کرنے والا کوئی نہیں ۔

معلوم ہوا ہے کہ حال ہی میں ریجنل آفس مانگا منڈی لاہور کے ایک انتہائی بااثر اور بدعنوان اسٹاف ملازم اور ای او بی آئی کے انتہائی بااثر بدنام زمانہ اور بدعنوان طاہر صدیق، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے کاروباری فرنٹ مین رانا شفاعت علی، ایمپلائی نمبر 930461 نے بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ ریجنل آفس کے بعض اعلیٰ افسران کی ساز باز سے ریجنل آفس کے دو بند ٹیلی فون کے جعلی بلز تیار کرکے ای او بی آئی کو ہزاروں روپے کا چونا لگا دیا ہے ۔ جو ادارہ میں اپنی طرز کی انوکھی جعلسازی ہے ۔

تفصیلات کے مطابق ای او بی آئی کے فنانس اینڈ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی میں ریجنل آفس مانگا منڈی لاہور کی جانب سے ارسال شدہ فروری 2023ء کی ماہانہ سمری میں شامل دفتر کے دو ٹیلی فون بلوں کی جانچ پڑتال کے دوران انکشاف ہوا کہ ریجنل آفس کے انچارج پیٹی کیش رانا شفاعت علی، سینئر اسسٹنٹ کی جانب سے ہیڈ آفس بھیجی جانے والی ریجنل آفس کی فروری 2023ء کی ماہانہ سمری میں دفتر کے کافی عرصہ سے بند ٹیلی فون نمبر 35384540-042 پر دسمبر 2023ء کے بل کی مد میں 7750 روپے طلب کئے ہیں جبکہ دسمبر 2023ء کے بل کا فروری 2023ء میں جاری ہونا اور رقم طلب کرنا حیران کن بات ہے ۔ اس دوران فنانس اینڈ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ابتدائی تحقیقات کے دوران PTCL لاہور کی جانب سے ای او بی آئی کو بتایا گیا کہ اس ٹیلی فون کا جنوری 2023 ء کا بل صرف 190 روپے جاری کیا گیا تھا کیونکہ ان کے ریکارڈ کے مطابق یہ ٹیلی فون جولائی 2022ء سے بند پڑا ہے ۔ جبکہ جعلساز ملازم رانا شفاعت علی کی جانب سے ریجنل آفس مانگا منڈی کی پچھلی سمریوں میں اس ٹیلی فون کے بلوں میں جعلسازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ستمبر 2022 ء میں 6510 روپے، دسمبر 2022 ء میں 7550 روپے اور جنوری 2023 ء میں 3440 روپے وصول کئے گئے تھے ۔

اسی طرح ای او بی آئی ریجنل آفس مانگا منڈی کے بااثر اور جعلساز رانا شفاعت علی نے ریجنل آفس مانگا منڈی کے دوسرے بند ٹیلی فون نمبر 35384489-042 کے بل کی مد میں 5088 روپے طلب کئے تھے ۔ جبکہ PTCL کی ویب سائٹ پر اس فون نمبر کے استعمال اور بلوں کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے ۔ فنانس اینڈ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ کے افسران کا کہنا ہے کہ نہ جانے جعلساز رانا شفاعت علی نے ایسا کون سا سوفٹ ویئر استعمال کیا ہے کہ ریجنل آفس کے بند ٹیلیفونوں کی مد میں PTCL کے جعلی بل تیار کرلئے ہیں اور پیٹی کیش انچارج کی حیثیت سے نہ جانے کتنے عرصہ سے ای او بی آئی ہیڈ آفس سے جعلسازی کے ذریعہ لاکھوں روپے کی رقوم بٹورنے میں مصروف ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رانا شفاعت علی ابتداء ہی سے بری شہرت کا مالک ہے اسے لاکھوں روپے کے پیٹی کیش کی ذمہ داری دینا دودھ کی رکھوالی پر بلے کو بٹھانا ہے ریجنل آفس مانگا منڈی لاہور میں لاکھوں روپے کے جعلی واؤچرز کے ذریعہ بھاری رقوم کے غبن کی تحقیقات اور رانا شفاعت علی کے سرپرستوں کی نشاندہی کی فوری طور پر ضرورت ہے ۔

بند ٹیلی فون کے بلوں میں خود ساختہ اور جعلی رقوم کا انوکھا معاملہ سامنے آنے پر فنانس اینڈ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی نے اپنی ابتدائی تحقیقات میں ریجنل آفس مانگا منڈی کے دونوں ٹیلی فون بلوں کو خودساختہ اور جعلی قرار دیتے ہوئے اس معاملہ کی تحقیقات کے لئے چیئر پرسن کو رپورٹ پیش کی تھی ۔ جس پر چیئر پرسن ناہید شاہ درانی نے ریجنل آفس مانگا منڈی کے بدعنوان اور جعلساز ملازم رانا شفاعت علی کی جانب سے دفتر کے ٹیلیفون بلوں کی مد میں سنگین جعلسازی کا نوٹس لیتے ہوئے غلام حسین کھوسو، اسسٹنٹ ڈائریکٹر فنانس اینڈ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی کی سربراہی اور قمر شہزاد، اسسٹنٹ ڈائریکٹر انٹرنل آڈٹ ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیدی ہے ۔

تحقیقاتی ٹیم نے حال ہی میں ریجنل آفس مانگا منڈی کا دورہ کرکے ریجنل آفس کا پورا ریکارڈ قبضہ میں لے کر ریجنل ہیڈ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر آڈٹ اینڈ ایڈمنسٹریشن اور جعلساز ملازم رانا شفاعت علی سمیت دیگر 9 ملازمین کے بیانات ریکارڈ کرلئے ہیں ۔

لیکن باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ رانا شفاعت علی سینئر اسسٹنٹ کو ای او بی آئی کے ایک انتہائی بدنام زمانہ اور بدعنوان افسر طاہر صدیق اسسٹنٹ ڈائریکٹر سابق اسٹاف افسر (SO) ڈی جی شازیہ رضوی اور فیلڈ آپریشنز لاہور کے بعض بدعنوان اعلیٰ افسران کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے ۔ لہذاء اس کیس میں ملوث ملزم رانا شفاعت علی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔ اگرچہ تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ غلام حسین کھوسو، اسسٹنٹ ڈائریکٹر تو ایک اصول پرست اور کسی کے دباؤ میں نہ آنے والا افسر ہے لیکن تحقیقاتی ٹیم میں شامل دوسرا افسر قمر شہزاد، اسسٹنٹ ڈائریکٹر آڈٹ کمزور کردار کا حامل شخص ہے ۔ جو جعلسازی کے مرکزی کردار بدنام زمانہ بااثر افسر طاہر صدیق اسسٹنٹ ڈائریکٹر بہاولپور اور اس کے فرنٹ مین اور جعلساز رانا شفاعت علی سینئر اسسٹنٹ کا گہرا دوست بھی ہے اور ان کے ساتھ ہی 2014 ء میں بھرتی ہوا تھا ۔ قمر شہزاد کے 2014 ء بیچ سے تعلق اور ہم زبان ہونے کے باعث وہ ملوث ملزم رانا شفاعت علی سے گہری ہمدردی رکھتا ہے اور ہر ممکن طور پر جعلساز ملازم رانا شفاعت علی کو بچانے کا خواہشمند معلوم ہوتا ہے ۔

واضح رہے کہ ای او بی آئی کے ملک بھر میں قائم 39 ریجنل آفسوں کے روزمرہ انتظامی اور مالی امور چلانے، یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی، اسٹیشنری کی خریداری ، افسران کو پٹرول اور میڈیکل بلوں کی ادائیگی کے لئے فنانس اینڈ اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی کی جانب سے پیٹی کیش کی مد میں 5 لاکھ روپے ماہانہ تک کی ادائیگی کی جاتی ہے ۔ جو سالانہ 60 لاکھ روپے بنتی ہے ۔ جبکہ ادارہ کے ہر ریجنل آفس میں کم از کم دو PTCL ٹیلی فون نصب ہوتے ہیں لیکن یہ دفتری امور کے بجائے افسران کے ذاتی استعمال میں ہوتے ہیں ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی کے بعض ریجنل آفسوں میں تعینات 2014ء کے بیچ سے تعلق رکھنے والے بدعنوان اور جعلساز افسران اور اسٹاف ملازمین ریجنل ہیڈ کی ملی بھگت کے ذریعہ پیٹی کیش کی رقم سے جعلی واؤچرز کی مدد سے لاکھوں روپے کے غبن میں ملوث رہے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود آج تک ان کے بدعنوان اور جعلساز عناصر کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی ۔

بتایا جاتا ہے کہ ای او بی آئی میں 2014 ء میں بھرتی ہونے والے طاہر صدیق اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی موجودہ تعیناتی ریجنل آفس بہاولپور اس کے گہرے دوست وقاص چوہدری اسسٹنٹ ڈائریکٹر آپریشنز کی موجودہ تعیناتی ریجنل آفس کوٹری میں ہے اور اس کیس میں ملوث جعلساز ملازم رانا شفاعت علی سینئر اسسٹنٹ کی موجودہ تعیناتی ریجنل آفس مانگا منڈی لاہور میں ہے لیکن اس کے باوجود یہ تینوں ملازمین مل جل کر لاہور میں اپنا ایک خفیہ کاروباری نیٹ ورک چلا رہے ہیں ۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ طاہر صدیق بہاولپور، وقاص چوہدری کوٹری اور رانا شفاعت علی مانگا منڈی میں تعیناتی کے باوجود مہینے میں ایک دو دن کے لئے صرف حاضریاں لگانے ہی اپنے اپنے دفتر جاتے ہیں ۔ جبکہ ان کا مستقل ٹھکانہ B&C II آفس لاہور میں قائم ہے جہاں وہ صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں EOBI رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ اداروں اور کمپنیوں کے مالکان کو ای او بی آئی میں رجسٹریشن کرانے کے نام پر ہراساں کرکے اور انہیں بھاری ڈیمانڈ نوٹسوں سے ڈرا دھمکا کے ان کی کمپنی کی پروڈکٹس کی ڈیلر شپ/ ڈسٹریبیوشن حاصل کرلیتے ہیں اور اس طرح صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں ان کے غیر قانونی کاروبار کی نگرانی جعلساز ملازم رانا شفاعت علی سینئر اسسٹنٹ انجام دیتا ہے ۔

لیکن ای او بی آئی پنجاب کے بعض اعلیٰ افسران کی سرپرستی اور حصہ داری کے باعث ملک کے لاکھوں غریب محنت کشوں کی پنشن فنڈ کا خون چوسنے والی ان کالی بھیڑوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ای او بی آئی کی اصول پرست چیئر پرسن ناہید شاہ درانی ریجنل آفس مانگا منڈی جعلسازی کیس میں ملوث جعلساز ملازم رانا شفاعت علی کو کیا سزا دیتی ہیں یا اس بار بھی رانا شفاعت علی کو ای او بی آئی کے انتہائی بااثر افسران کا کارندہ خاص ہونے کی بناء پر اسے صاف بچا لیا جائے گا!

Leave a Reply