کراچی میں بڑھتے اسٹریٹ کرائم نے جینا دو بھر کر دیا2023 کے آغاز تک 20 ہزار سے زائد وارداتیں ہو چکی ہیں 

کراچی :شہرقائد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نہ تو اسٹریٹ کر ائمز کنٹرول ہو پا رہے ہیں اور نہ ہی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں کمی آرہی ہے۔ شہر میں اسٹریٹ کرائم اب ہر علاقے میں ہور ہے ہیں مگر ان کی روک تھام کے لئے الھائے گئے تمام اقدام ہے مود ثابت ہورہے ہیں ۔ شہر میں اسٹریٹ کرائٹر کے حوالے سے خود پولیس حکام کا کہتا ہے کہ جنوری 2023 میں 7ہزار سے زائد وارداتیں ہو ئیں جبکہ فروری میں 6500 سے زائد اور مارچ میں تقریبا 7 ہزار شہری اسٹریٹ کرائم کا نشانہ بنے۔ پولیس حکام کے مطابق کے دوران اب تک 20 ہزار سے زائد وارداتیں ہو چکی ہیں۔

پولیس کے مطابق اسٹریٹ کرائم میں شہریوں سے موبائل فون، گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چھینی گئیں۔ پولیس کے مطابق انہیں وارداتوں کے دوران شہری لاکھوں روپے نقدی سے بھی محروم ہوئے۔ کراچی میں اکثر شہری اسٹریٹ کر مند کے ہاتھوں تنے کے بعد تھانے میں ایف آئی آر بھی دراج نہیں کراتے جس کی وجہ سے شہر میں اسٹریٹ کرائٹر کی وارداتوں کی اصل صورتحال سامنے نہیں آپاتی۔ میڈ یا پر رپورٹ ہونے والی خبروں کے مطابق رواں سال اسٹریٹ کرائمر کی وارداتوں میں شہریوں کی مزاحمت کے نتیجے میں اب تک 34 افراد جاں بحق اور 80 زخمی ہو چکے ہیں۔ رواں سال کے دوران اسٹریٹ کر ائمز کی وارداتوں میں اب تک کراچی کے شہری 9 ہزار سے زائد موٹر سائیوں ، 4 سو کاروں سے محروم کر دیئے گئے ہیں

جبکہ ان وارداتوں کے دوران شہریوں سے 4 ہزار 8 سو 43 موبائل فونز بھی چھینے گئے ہیں ۔ اس طرح کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ صرف دو ماہ کے دوران ایک ماہر تعلیم ، دو مذ ہبی شخصیات اور ایک ڈاکٹر کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اگر چہ پولیس نے دعوی کیا ہے کہ ماہر تعلیم سید خالد رضا کی ٹارگٹ کلنگ میں گرفتاریاں ہوئی ہیں تاہم اس معاملے میں کوئی تھوں پیش رفت دکھائی نہیں دیتی دوسری جانب پولیس نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ گلستان جوہر میں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے مفتی عبدالقیوم کے قتل میں ملوث ایک پولیس افسر کو گرفتار کیا گیا ہے اسی طرح کراچی میں جمعہ 30 مارچ کو ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے ڈاکٹر پر بیل گینانی کے قتل میں بھی پولیس نے مقتول ڈاکٹر پیریل کی استدانت ڈاکٹر قراة العین اور ان کے ایک قریبی رشتے کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا ہے۔

شہر میں اسٹریٹ کرائمز کے بڑھتے ہوئے واقعات پر شہریوں میں خوف و ہراس پایا جا رہا ہے حکومت سندھ صوبےاور وفاق کو سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر کے باسیوں کو تخلط فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ حکومت سندھ نے شہر میں کر ائمز کو کنٹرول کرنے کے لئے متعدد دفعہ آئی جی پولیس کو تبدیل کیا مگر معاملہ جوں کا توں ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پولیس اور سندھ حکومت اسٹریٹ کرمقلد کے سامنے بے بس ہونے کے بعد شہریوں کو ان کے رحم کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ایک جانب کراچی میں شہری سڑکوں ، گلیوں اور بازاروں میں سے یہ دونوں خوار وہ ہیں۔ لٹ رہے ہیں تو دوسری جانب شہریوں کے گھر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ آئے روز شہر کے مختلف علاقوں میں مسلح ڈکیت گھروں کا صفایا کر رہے ہیں۔ شہریوں نے گے۔ ان سندھ حکومت سے مایوس ہو کر ایک واقعہ پھر اپنی مدد آپ کے تحت کیوں میں پیر پیر زنگانااور پرائیویٹ گارڈز رکھنا شروع کر دیئے ہیں۔ کراچی کے شہری ایک جانب طویل عرصے سے اسٹریٹ کر مقد کے ہاتھوں پر خیال ہیں تو دوسری جانب اپنے بنیادی شہری حقوق سے بھی محروم ہیں۔

بلدیاتی انتخابات ہوئے دو ماہ سے زائد کا عرصہ گرنے جانے کے باوجود کراچی میں ابھی تک بلدیاتی نما سندوں کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے۔ شہر میں نہ تو میٹر اور ڈپٹی میئر کا فیصلہ ہو پا رہا ہے اور نہ ہی چیئر مین اور وائس چیئر مین اپنے عہدے سنبھال سکتے ہیں اسی طرح منتخب کونسلر ز بھی غیر فعال ہیں جبکہ انتخابات کے بعد متنازعہ نشتوں کے نتائج کو بھی حتمی شکل نہیں دی جاسکی ہے جس پر سیاسی جماعتیں خوف و ہراس پایا جارہا ہے۔ حکومت سندھ صوبے اور وفاق کو سب احتجاج بھی کر رہی ہیں اور انہوں نے عدالتوں سے بھی رجوع کیا

ہوا ہے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں سب سے زیادہ نشتیں جینے کا دعوی کرنے والی جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا ہفتہ یکم اپریل کو نیو کراچی میں ایک دعوت افطار میں خطاب کرتے ہونے کا کہنا تھا کہ 15 جنوری کے بلدیاتی انتخابات میں اہل کراچی نے جماعت اسلامی کو بھر پور عوامی مینڈیٹ دیا تھا مگر اب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم مل کر جماعت اسلامی کے میٹر کا راستہ روکنا چاہتی ہیں کیونکہ 11 نشستوں پر بھی جماعت اسلامی کی یقتینی جیت سے یہ دونوں خوفزدہ ہیں ۔ یو سی 4 نیو کراچی میں چاروں وارڈز میں جماعت اسلامی جیت چکی ہے اور 18 اپریل کو چیئر مین و وائس چیئر مین بھی ہمارے ہی جیتیں کا کہنا تھا کہ ترازو کراچی کی تعمیر و ترقی کا نشان ہے اور جماعت اسلامی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

حافظ نعیم الرحمن کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور سندہ حکومت حکومتی اختیارات و وسائل اور سرکاری مشنری کے بل پر الیکشن کمیشن اور آر اور وڈی آر اوز کے ساتھ مل کر جماعت اسلامی کے عوامی مینڈیٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ جماعت اسلامی کے تاریخی عوامی مینڈیٹ سے خوفزدہ ہیں اور بلدیاتی عمل کو مکمل نہیں ہوئے دے رہے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پیاز پارٹی 18 اپریل کے انتخابات سے بھی فرار چاہتی ہے کیونکہ ان 11 نشستوں میں وارڈز کی سطح پر جماعت اسلامی جیت چکی ہے۔ پیپلز پارٹی نیو کراچی، بہار کالونی نارتھ ناظم آباد اور لا ندھی کورنگی کے عوام سے ڈرتی ہے اور ان علاقوں میں اسے اپنی شکست واضح نظر آرہی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی اہل کراچی کے جائز اور قانونی حقوق کے حصول اور مسائل کے حل کے لیے مسلسل جد و جہد کر رہی ہے۔

کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں اگر چہ پی ٹی آئی نے بھی متعدد نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے مگر شہر میں میٹر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات اور بلدیاتی اداروں کو فعال کرانے کے لئے ان کی کوششیں صرف بیانات کی حد تک محدود دکھائی دے رہی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے فورا بعد پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرنے کی بات شروع کی تھی مگر بعد میں پی ٹی آئی نے اپنی ترجیحات تبدیل کر لیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی کے کچھ منتخب امیدوار پارٹی پالیسی کے انحراف کر کے پیپلز پارٹی کے میٹر اور ڈپٹی میٹر کو واٹ دینے میں فی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تاہم ان اطلاعات کی پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نے تردید کی ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہتا ہے

کہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے حال ہی میں ملاقات کی ہے جس میں سیاسی معاملات پر بات چیت جاری رکھنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی کے بلدیاتی سیٹ اپ میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی میں کوئی کھو یہ توقع ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ دونوں جماعتوں کی قیامت کے مابین آئندہ ہونے والی ملاقاتوں کے بعد ہو سکتا ہے

Leave a Reply